افراط زر کے اثرات سے جرمنی بھی متاثر لیکن …

   

پروین کمال
افراط زر کے اثرات سے اس وقت پوری دنیا متاثر ہے ۔ معاشی صورتحال دن بہ دن ابتر ہوتی جارہی ہے ۔ افراط زر دراصل معاشی دنیا کا ایک بلند قامت دیو ہے۔ اس میں قیمتیں بڑھتی ہیں اور زر کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے یعنی زیادہ پیسے سے کم اشیاء خریدے جاتے ہیں ۔ یہ معاشی نظام کی ایک بدترین صورتحال ہے ۔ اس کی دو وجوہات ہیں ، اول تو گزشتہ تین برسوں سے ’’کوویڈ‘‘ کی وجہ سے دنیا کی معیشت تباہ ہوچکی ہے اور ابھی اس پر قابو پانے کیلئے جدوجہد جاری ہی تھی کہ ایک اور مصیبت جنگ کی صورت میں نازل ہوچکی ہے جس کا اثر دنیا کی معیشت پر شدت سے پڑ رہا ہے ۔ چنانچہ اس وقت جرمنی بھی ان ہنگامی حالات سے گزر رہا ہے۔ روز مرہ زندگی مسائل کا شکار ہورہی ہے۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ آخر ہماری پرسکون زندگی کب بحال ہوگی۔ ان حالات کو پیش نظر رکھ کر سنجیدگی سے غور و خوض کیا گیا ۔ تب یہ بات سامنے آئی کہ مہنگائی سے مقابلہ کرنے کیلئے تنخواہیں بڑھانے کا مطالبہ کیا جائے ۔ اس کے لئے نمائندہ یونین نے ہڑتال کروانے کا فیصلہ دے دیا ۔ چنانچہ گزشتہ دنوں چار ہفتوں تک وقفہ وقفہ سے ہڑتال جاری رہی جس کے جواب میں انتظامیہ نے ملازمین کے مطالبات کا نصف فیصد دینے پر رضامندی ظاہر کردی۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ حکومت کی طرف سے عوام کو خوشحال زندگی گزارنے کا موقع دیا جارہا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹیکسوں میں کمی اور مابقی قسطوں میں ادا کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ جرمنی ایک منظم ملک ہے جہاں زندگی قاعدے قانون کے دائرے میں گھومتی ہے ، جو قانون کتاب ہوگا ، وہی عملی زندگی میں بھی موجود ہوگا۔ یہی وہ طرز عمل ہے جس کی بنیاد پر حکومتیں اور زندگیاں پرسکون انداز میں رواں دواں ہیں۔ یہ وضاحت بھی یہاں ضروری ہے کہ ہڑتالوں کی نوعیت یہاں کچھ اور ہوتی ہے ۔ کوئی افراتفری ، کوئی نعرے بازی ، کچھ بھی نہیں۔ حکومت کے خلاف کوئی آواز نہیں۔ کوئی تشدد اور نہ ہی کوئی غیر قانونی عمل ، متعینہ مقامات پر جمع ہوتے ہیں، تقریریں بھی ہوتی ہیں مگر مشتعل کرنے والی نہیں ۔ قاعدے قانون کی حدیں پار نہیں کی جاتیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کسی کی استقبالیہ تقریب چل رہی ہے ۔ انتظامیہ کی طرف سے بھی تعاون کیا جاتا ہے ۔ عوام کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے بہت جلد مطالبات کی یکسوئی کردی جاتی ہے ۔ یہ نہیں کہ منظوری کا اعلان تو کردیا لیکن پھر وہ سرد خانے میں رکھ دیئے گئے ۔ افراط زر سے نپٹنے کا تو کوئی نہ کوئی راستہ ننکل آیا ہے لیکن اب دوسرا بڑا مسئلہ مہاجرین کا آن پڑا ہے جن کی بڑھتی ہوئی تعداد بہت سارے مسائل کا سبب بن چکی ہے ۔ یوروپ میں اس وقت موسم گرما کی آمد ہے اور اس کے ساتھ ہی مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ جنگی حالات کو بنیاد بناکر جنگ سے متاثرہ ملکوں سے افراد ترک وطن کر کے یوروپ پہنچ رہے ہیں۔ حالیہ جنگ سے متاثر روسسی اور یوکرینی باشندے بھی پناہ کی تلاش میں یوروپی یونین کے ممالک کا رخ کر رہے ہیں ۔ خاص طورپر جرمنی ان کیلئے پرکشش ہے کیونکہ جرمنی میں شخصی اور سیاسی آزادی کے علاوہ جان و مال کا تحفظ اور دیگر سہولیات حاصل کرنے کے بہت سارے مواقع ہیں ۔ خاص طورپر روسی باشندے اپنے آپ کو جنگی حالات سے یا پھر یہ کہ جنگ میں شرکت سے بچانا چاہتے ہیں ، اس کے علاوہ کمیونسٹ ماحول سے نکل کر آزاد فضاء میں سانس لینا چاہتے ہیں ۔ جہاں آباد ہو کہ وہ اپنے وجود کو بہتر بناسکیں۔ اپنے خاندان کے ساتھ دنیا کی نعمتیں بانٹ سکیں۔ گزشتہ ایک برس سے زائد عرصہ سے جاری جنگ ان کے لئے عذاب بن چکی ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح دوسرے ملک پہنچ جائیں ۔ جرمنی تو ان کیلئے بے حد کشش رکھتا ہے اور جرمن انتظامیہ کی طرف سے انہیں تعاون بھی مل رہا ہے ۔ ان کی درخواستیں جلد منظور کی جارہی ہیں۔ پہلے کے مقابلہ میں اس وقت ان کی تعادد میں بہت اضافہ ہواہے ۔ روس کے علاوہ ایشیائی اور افریقی ممالک کے باشندے بھی جرمنی پہنچ رہے ہیں۔ یہ افراد کشتیوں کے ذریعہ بحیرہ روم کے راستے یوروپ پہنچتے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی خستہ حال کشتیاں جو لہروں کے ٹھپڑوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں اور مسافروں سمیت غرقاب ہوجاتی ہیں ۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ عمل جاری ہے ۔ جب کبھی بھی کوئی ملک جنگ کی زد میں آتا ہے، مہاجرین کا سیلاب امڈ آتا ہے ۔ اس کی نمایاں وجہ وہ قراردادیں ہیں جو برسوں پہلے طئے پاچکی تھیں جس کی رو سے یوروپ کے کسی بھی ملک میں جنگ کی صورت میں وہاں کے باشندوں کو اپنے ملک میں رکھ کر جانی اور مالی مدد کرنا ضروری ہے ۔ اسی کا فائدہ وہ اٹھاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے خاندانی افراد ان ہی جنگ زدہ ملکوں میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن جو لوگ یوروپ کی سکونت حاصل کرنے کے شوقین ہیں ، وہ کسی نہ کسی طرح جنگی حالات کو وسیلہ بناکر چلے آتے ہیں ۔ ایک ’’شامی‘‘ محترمہ جو بحیثیت مہاجر جرمنی میں آئی ہوئی ہیں ، وہ دیکھنے میں مہاجر کم اور ماڈل زیادہ لگ رہی تھیں۔ ہم مہاجر کیمپ سروے کرنے کی غرض سے جب گئے تو دیکھ کر بے حد حیرانی ہوئی، کوئی یقین نہیں کرے گا کہ ایک جنگ زدہ ملک جہاں دکان اور مکان سب کچھ مٹی کے ڈھیر بن چکے ہیں، جہاں جانوں کا خطرہ بھی لاحق ہے ، وہاں کی رہنے والی اتنے شاندار اسٹائل میں زندگی گزار رہی ہیں تو ملک چھورنے کی کیا ضرورت تھی۔ بات وہیں آکر رکتی ہے کہ انہیں یوروپ کی کشش کھینچ لائی ہے ۔ غرض ، مہاجرین کے کیمپوں میں کھانے کا خاص انتظام کیا جاتا ہے ۔ صرف بریڈ ، بٹر ہی نہیں بلکہ ترکی اور عربی کھانوں کا اہتمام بھی تھا ۔ پتہ چلا کہ ہر روز مہاجرین کے لئے ایسے ڈشش تیار کئے جاتے ہیں ۔ مہاجرین کا یہ بوجھ جرمن حکومت اور عوام اب محسوس کرنے لگے ہیں ۔ جرمن باشندوں کو دراصل خوشحال زندگی بسر کرنے کی عادت ہے ۔ مستحکم قیمتیں اور افراط زر سے عاری مارکٹ کے وہ عادی ہیں لیکن اس کے برعکس اس وقت انہیں افراط زر جیسی معاشی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور پھر ٹیکسوں میں اضافہ بھی ۔ ان تمام حالات کے اثرات جو ان کی زندگیوں پر پڑے ہیں ، اسی بنیاد پر ہڑتال کی گئی تھی جو کامیاب رہی ۔ انتظامیہ نے عوام کو ناامید نہیں کیا بلکہ مطالبات کا نصف منظور کر کے عوام کیلئے سہولت مہیا کی ۔ یوروپ کا یہی نظریہ ان ملکوں کی ترقی کا ضامن ہے ۔ یہاں حکومتیں اور عوام ایک دوسرے سے سمجھوتہ کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے ۔ ان کا یہ عمل قابل تحسین ہی نہیں لائق تقلید بھی ہے ۔ آج کل جرمنی میں سیاہ فام افراد کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے جبکہ گزشتہ ادوار میں شاذ و نادر ہی کہیں دیکھے جاسکتے تھے ۔ چند فہم و فراست رکھنے والے ذہنوں میں یہ سوال بھی ابھر رہا ہے کہ یہ تعداد اگر یونہی بڑھتی رہی تو کہیں رنگ و نسل کا مسئلہ ایک بار پھر شروع نہ ہوجائے جس کے لئے بڑے بڑے سیاستداں، مذہبی رہنما اور انسانیت کو یکسانیت کا درجہ دینے والی شخصیات نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس ذ ہنیت کو ختم کیا تھا ۔ آج کا انسان علم کی روشنی سے انتہائی وسیع النظر ہوچکا ہے کہ وہ اب انسانیت کے علاوہ کسی اور رویہ کو نہیں مانتا لیکن اس کے برعکس یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ نئی نسلیں جب جوان ہوجاتی ہیں تو وہ پرانے اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتیں۔