افسوس! بھگت سنگھ، نیتاجی کی صف میں آگئے ساورکر

   

رام پنیانی

قوم پرستی جو تحریک آزادی کی جڑ تھی، جس کی بنیاد مشمولاتی تکثیریت پر ہے، موجودہ طور پر آر ایس ایس پریوار کی سیاست کے اُبھراؤ سے شدید دباؤ میں ہے۔ آر ایس ایس کے تمام شعبے سرگرمی سے ہماری سماجی اور سیاسی زندگی کے زیادہ تر شعبوں میں دخل دے رہے ہیں اور غالب ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہے جو قدیم دور سے ہندو قوم پرستی کے تسلسل کو ظاہر کرتی ہے۔ ایسی آئیڈیالوجی بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ تحریک آزادی کے دوران اس کے رول اور اس کے موافق برطانوی رول کو چھپانا ہے۔ اس سمت میں وہ حالات کی ایسی تشریح کررہی ہے جس سے ظاہر کیا جائے کہ وہ تحریک آزادی کا حصہ تھے۔ اُن کے نظریہ ساز رات دن ایک کررہے ہیں کہ ایسی تصویر اُبھاری جائے جو تحریک آزادی سے اُن کی دغابازی کی سچائی سے کہیں دور ہو۔ ساتھ ہی وہ نامور شخصیتوں کو ہتھیا لینا بھی چاہتے ہیں، جو یا تو گاندھی۔ نہرو کے ساتھ موقتی اختلاف رکھتے تھے یا برطانوی تسلط کے خلاف لڑائی کیلئے کوئی اور راستہ اختیار کیا۔
اس سمت میں پہلی بڑی کوشش سردار ولبھ بھائی پٹیل کیلئے اپنی چاہت کا اظہار رہی، حالانکہ وہ زندگی بھر کانگریسی رہے، موہن داس کرمچند گاندھی کے پکے شاگرد اور جواہر لعل نہرو کے قریبی معاون رہے۔ بعض چھوٹے مسائل کریدتے ہوئے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر سردار پٹیل پہلے وزیراعظم ہند ہوتے تو کشمیر جیسے مسائل موجود نہ ہوتے۔ اسی طرح کے معاملوں کو آگے بڑھاتے ہوئے اب وہ ایسے پروپگنڈہ کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں کہ بھگت سنگھ کو جسے انگریزوں نے سزائے موت دی، گاندھی جی نے نہیں بچایا۔ یہ پروپگنڈہ اس حقیقت کو نظرانداز کررہا ہے کہ گاندھی جی نے بھگت سنگھ، سکھدیو اور راج گرو کی زندگی بچانے کی حتی المقدور سعی کی لیکن برطانوی حکومت اٹل تھی کہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو معافی نہ دی جائے۔ وہ اس حقیقت سے بھی صرفِ نظر کررہے ہیں کہ بھگت سنگھ نے خود برطانوی حکومت سے معافی طلب کرنے کی تجویز مسترد کردی تھی۔ بھگت سنگھ کا اپنے شفاف عمل کے ذریعے ساری قوم کو تحریک بخشنے کا واضح اور اصولی موقف تھا۔

یہ سب ذہن میں اُبھر آتا ہے جب بھگت سنگھ، نیتاجی بوس کے ساتھ ساورکر (جن کو تریمورتی کہا جارہا ہے) کے نصف مجسمے یکساں اسٹانڈ کے ساتھ دہلی یونیورسٹی کیمپس میں نصف کئے گئے ہیں! (اواخر اگست 2019ء)۔ ساورکر کو بھگت سنگھ اور نیتاجی سبھاش چندر بوس کی صف میں رکھنا ہمہ رخی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ یہ اس پروپگنڈے کا حصہ ہے کہ ساورکر دیگر دو کی طرح مخالف انگریز انقلابی تھے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ساورکر اپنی زندگی کے صرف پہلے مرحلے میں مخالف انگریز تھے، حتیٰ کہ ان کو انڈمان میں قید کردیا گیا تھا۔ اپنی قید کے دوران اُن میں تبدیلی آئی اور رہائی پانے کیلئے پانچ مرتبہ رحم کی گزارش بھیجے۔ آر ایس ایس اور ہندو قوم پرستوں کیلئے ساورکر سب سے بڑے نظریہ ساز ہیں کیونکہ انھوں نے ہندو قوم پرستی کی آئیڈیالوجی ’ہندوتوا‘ کی تشریح کی، حالانکہ خود بے دین رہے۔ اُن کے نظریات ہندو قوم پرستانہ سیاست کی بنیاد ہے۔ غدر 1857ء پر اپنی کتاب میں انھوں نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں ہندو۔ مسلم اتحاد کی بات کہی ہے۔ بعد میں ہندو قوم پرستانہ آئیڈیالوجی کے بانی کے طور پر اپنی تبدیلی میں انھوں نے مخالف مسلم بیان بازی کی، جو فرقہ وارانہ خطوط پر ہندوؤں کو متحد کرنے کیلئے لازمی عنصر ہے۔
اس کے برعکس وہ شخصیتیں جن کو آر ایس ایس پریوار ساورکر کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے، بھگت سنگھ اور نیتاجی ازحد مخالف انگریز تھے۔ بھگت سنگھ کمیونسٹ اور نیتاجی سوشلسٹ تھے۔ بھگت سنگھ نے گاندھی جی کی مشمولاتی تحریک کی مرکزیت کو ہندوستانی قوم پرستانہ تحریک کا بنیادی حصہ مانا۔ نیتاجی طریقہ کار میں اختلافات کے باوجود یہ دیکھ پائے کہ گاندھی جی ’بابائے قوم‘ ہیں۔ اُن کا اختلاف قوم پرستی کے نظریہ پر نہیں تھا؛ وہ زیادہ تر طریقوں کے بارے میں تھا۔ گاندھی جی ٹھوس طور پر عدم تشدد کے حامی تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران گاندھی جی نے ’ہندوستان چھوڑو‘ تحریک شروع کی تاکہ برطانوی گرفت کو کمزور کیا جائے اور ہندوستانی قوم کے ربط کو مضبوط بنایا جائے۔ اس موقع پر بوس جرمنی۔ جاپان محور کے ساتھ اتحاد کے حامی تھے۔ اس اعتبار سے بھگت سنگھ، نیتاجی، گاندھی جی اور اُن کے حامی ہندوستانی قوم پرستی سے تعلق رکھنے والے یکساں زمرہ میں کھڑے ہیں۔ دوسری طرف جناح مسلم لیگ میں شامل ہوجانے کے بعد اور ساورکر ہندو مہاسبھا کے رہنما لیڈر کی حیثیت سے دیگر گروپ میں ہیں۔ انھوں نے قوم پرستی کی اساس کے طور پر مذہب کا استعمال کیا۔ اتفاق سے یہ آئیڈیالوجی بالخصوص بادشاہوں اور زمینداروں کے طبقات کی طرف سے اُبھری۔ ہندوستانی قوم پرستی کے بڑے حامیوں کا تعلق سماج کے مختلف طبقات جیسے صنعتکار۔ بزنس مین، ورکرز اور تعلیم یافتہ متوسط طبقات و دیگر سے ہے۔ آخرالذکر نے مذاہب سے قطع نظر آزادی، مساوات اور بھائی چارہ کے اُصولوں کی تمنا کی، جبکہ اول الذکر نے پیدائش پر مبنی نظامِ درجات کے جاگیردانہ اقدار سے تحریک حاصل کی۔
لہٰذا، جو کچھ دہلی یونیورسٹی میں ہوا وہ ابتدائی نمونہ ہے جو کچھ اُبھرتی مذہبی قوم پرستی آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ تاریخی بیان اور شخصیتیں قوم پرستی کے اہم نظریاتی ستون ہیں۔ ابھی تک ہم نے آر ایس ایس پریوار کا ایک پہلو دیکھا ہے جہاں تاریخ کو ہندو بادشاہوں کی تعریف میں پیش کرتے ہوئے منو سمرتی طرز کے ہندو پُرانوں کی تعلیمات کو سربلند رکھا گیا ہے۔
دہلی یونیورسٹی کا واقعہ ہندو قوم پرستی کی نظریاتی ضرورت کے دوسرے پہلو کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ اس پہلو میں وہ شخصیتوں کو منتخب کیا جارہا ہے جن کے گاندھی جی (بوس۔ بھگت سنگھ) اور نہرو (پٹیل) کے ساتھ چند اختلافات رہے۔ یہ ’داخلی اختلافات‘ جو ہندوستانی قوم پرستی کے چوکھٹے میں رہے، ان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے اور کوشش یہی ہے کہ اسے ساورکر کے ساتھ مطابقت میں دکھایا جائے، جس نے تحریک آزادی سے دغا کی۔
دہلی یونیورسٹی کا واقعہ بھلے ہی آئینہ ہوسکتا ہے لیکن یہ زیادہ بڑے نظریاتی پروپگنڈے کو چھپاتا ہے جہاں آر ایس ایس پریوار انھیں مصنوعی طور پر یکجا کرنے کی کوشش کررہا ہے جن کے اختلافات ناقابل مصالحت ہیں یعنی ہندوستانی قوم پرستی اور مذہبی (ہندو یا مسلم) قوم پرستی کے درمیان اختلاف کو یکساں اساس پر رکھنا۔ ہندو قوم پرستوں کی طرف سے اس طرح کی کوششیں دراصل اہم نظریاتی فرق پر اندھیرا ڈالنے کی کوشش ہے۔انھیں ان شخصیتوں کے مختلف النوع نظریات کو سمجھنے اور ان کے بنیادی اختلافات کو ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال محض ایک مجسمہ کی تنصیب کا نہیں ہے؛ سوال یہ ہے کہ کس قسم کے ہندوستان کا ہم تصور کررہے ہیں، وہ جس کا خواب بھگت سنگھ، بوس، گاندھی جی اور ڈاکٹر امبیڈکر نے دیکھا، یا جسے موجودہ طور پر ہوشیاری سے وہ لوگ پیش کررہے ہیں جو ساورکر جیسے اشخاص کو حق بجانب ٹھہراتے ہوئے اُس ماضی کی تعریف و توصیف میں لگے ہیں جہاں عدم مساوات سماجی زندگی کا خاصہ تھا۔٭
ram.puniyani@gmail.com