اقلیتی کمیشن نے ہندوؤں کو اقلیتی درجہ فراہم کرنے کی درخواست کو کیامسترد

,

   

قومی کمیشن برائے اقلیتیں (این سی ڈبلیو)نے ان ریاستوں میں جہاں پر ہندووں کی تعداد کم ہے وہاں پر ہندوؤں کو(اقلیتی کمیونٹی) قراردینے کی درخواست کو مسترد کردیاہے۔

ذیلی کمیٹی کی ایک رپورٹ جس کو این سی ڈبلیو نے 26جولائی کے روز تسلیم اور منظور کیا میں کہاگیا کہ اقلیتی کمیشن نئے اقلیتی طبقات کا اعلان نہیں کرتا مگر اس کے بجائے وہ اقلیتوں کی ترقی‘ ان کے تعلیمی‘ تہذیبی اور مذہبی حقوق کی حفاظت کا کام کرتا ہے۔

مذکورہ این سی ایم ایڈوکیٹ اشونی اپادھیائے کی درخواست پر ردعمل پیش کررہاتھا تاکہ ریاستی سطح پر اقلیتوں کی شناخت کے لئے گائیڈ لائنس مقررکئے جائیں یا پھر این سی ایم ایکٹ1992کے سیکشن 2(C)کے تحت طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان ریاستوں میں ہندوؤں کواقلیت قراردیں جہاں پر ان کی آبادی اکثریت سے کم ہے۔

مسٹر اپادھیائے این سی ایم سے سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست کو تسلیم کرنے کے متعلق دی گئی ہدایت کی بنیاد پر رجوع ہوئے تھے۔ مذکورہ این سی ایم نے جارج کورین‘

منجیت سنگھ رائے او رعطف رشید پر مشتمل ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی تھی‘ جس نے فبروری او راپریل کے دوران پانچ مرتبہ اس مسئلے پر تبادلہ خیال کے لئے اجلاس منعقد کیا۔ کمیٹی کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ مسٹر اپادھیائے کی درخواست میں ترجیحات کوگمراہ کن ہیں۔

این سی ایم کے دائرے اختیار میں اقلیتی اعلان کرنا نہیں ہے۔ ایک کمیونٹی کو اس طرح کا اقلیت قراردینا مرکزی حکومت کے ساتھ جھوٹ ہوگا۔

رپورٹ میں کہاگیاکہ این سی ایم ایکٹ کے ذریعہ ایسا نہیں کیاجاسکتا ہے۔

سیکشن2(C)سے ہٹ کر مذکورہ این سی ایکٹ خود واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ ایک کمیونٹی کو ”اقلیت“ کے طور پر پیش کرنے کا کام صرف حکومت کرسکتی ہے۔

عدالت نے کہاکہ اقلیتی کمیشن کا دستور کام ”اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے ذریعہ سماجی حالات میں سدھار لانا ہے“