الفتح الربانی کا تحقیقی مطالعہ

   

حافظ و قاری محمد ذاکر پاشاہ
سرکار غوث اعظم سلطان الاولیاء سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؓنے زبان و قلم کردار و عمل اور جان و مال اور ہر اعتبار سے دین مصطفوی کی اشاعت کی اور اس کی تقویت کا سامان فرمایا ، ان میں آپ کی تصنیف لطیف اور آپ کے مواعظ کا کیمیاء اثر مجموعہ ’’الفتح الربانی والفیض الرحمانی ‘‘ ایک ہے ۔ یوں تو آپ کے ارشادات ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور ہر ارشاد قوم و ملت کی ترقی کے لئے راہنما ہے ۔ الفتح الربانی میں صرف باسٹھ مجالس میں فرمودہ ارشادات کا احاطہ کیا گیا اور جس ارشاد پر نظر ڈالیں وہی ارشاد خضر راہ نظر آتا ہے ۔ (صاحب قلائد لکھتے ہیں کہ آپ کی ہر مجلس میں کوئی نہ کوئی یہودی یا عیسائی مشرف بہ اسلام ہوتا ۔ ڈاکو ، قاتل اور دیگر جرائم پیشہ اور بدعقیدہ لوگ تائب ہوتے ۔ جب آپ کرسی پر تشریف فرما ہوتے تو تیرہ علوم و فنون میںگفتگو فرماتے اور ہیبت اتنی ہوتی کہ مجمع پر سناٹا چھاجاتا ۔ پھر اچانک فرماتے قال ختم ہوا اور اب ہم حال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ یہ سنتے ہی سامعین کی حالت میں عظیم انقلاب بپا ہوتا ۔ کوئی آہ بُکا میں مصروف ہوتا ۔ کوئی مُرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہوتا ، کسی پر وجد کی کیفیت طاری ہوتی اور کوئی بے خودی میں کپڑے پھاڑ کر جنگل کی راہ لے لیتا ، کچھ ایسے بھی ہوتے جن پر شوق اور ہیبت کا اس قدر غلبہ ہوتا کہ طائر روح قفس عنصری سے پرواز کرجاتا ۔
آپ نے محض گوشہ نشین ہوکر زندگی بسر نہیں کی بلکہ آپ فیضانِ محمدی کی وہ قندیل تھے کہ جس کے فیض سے ہر شعبۂ زندگی مستفید ہوا۔ آپ فتح الربانی میں فرماتے ہیں ’’جس شخص کا علم زیادہ ہو اسے چاہئے کہ خوفِ خدا اور عبادت بھی زیادہ کرے ‘‘۔ ’’خالق کا شکوہ مخلوق سے نہ کر بلکہ خالق ہی سے کر اسی نے سب اندازے لگائے ہیں وہی کارساز ہے ‘‘۔ روحانی مقامات کی ترقی و کمال میں رزق حلال کو بڑی اہمیت حاصل ہے ، ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی پس جس پیٹ میں حرام کا لقمہ ہے اس کے منہ سے نکلنے والی دعا کب قبول ہوسکتی ہے ۔
حضرت غوث اعظم نے اپنے مواعظ میں عقیدت سے عبادت تک اور تجارت سے معیشت تک ہر گوشہ اور ہر طریق میں راہ نمائی فرمائی ہے ۔ نزولِ تقدیر کے وقت اعتراض کرنے میں دین و ایمان کی موت ہے ۔
الفتح الربانی سیدنا غوث اعظمؓ کے باسٹھ مواعظ اور ملفوظات کا مجموعہ ہے جن میں سے اکثر مختصر اور بعض طویل ارشادات ہیں ۔ آپ کے خطبات و ارشادات کی افادیت آج بھی بدستور برقرار ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دل و جان سے متوجہ ہوکر ان کا مطالعہ کریں اور عمل پیرا ہوں ۔