’’ الفتح الرَّباَّنی ‘‘ کا تحقیقی مطالعہ

   

سید امین الدین حسینی
الفتح الربانی میں ایک جانب جہاں علماء حق و اولیاء کرام سے بغض کے انجام پر روشنی ڈالی وہیں پر علمائے سو اور ابن الوقت صوفیاء کی اچھی طرح گوشمالی کی ۔ علاوہ ازیں ایک سمت جہاں آپؓ نے مسلمانوں کو روحانی و اخلاقی اقدار کی اصلاح کی تلقین کی وہیں پر ان کو منہیات اور معصیت کے ارتکاب سے بچنے کا درس دیا۔ ان خطبات کے مطالعہ کے بعد یہ بات واضح طور پر نمایاں ہو جائے گی کہ آپؓ کے یہ خطبات ملتِ اسلامیہ کے لئے خضرِ راہ ہے۔ان خطبات کی انگنت خصوصیات ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں لیکن چند خصوصیات درجہ ذیل ہیں:
۱۔مختصر و نہایت جامع الفاظ کے ذریعہ خطبوں میں متعدد موضوعات کا احاطہ کیا گیا ۔۲۔ ان خطبات میں فلسفیانہ موشگافی نہیں بلکہ قرآن کریم کا حکیمانہ انداز پایا جاتا ہے۔ جیسے ارشاد ربانی ہے ’’ٱدْعُ إِلىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ‘‘ (۳) ۳۔ موقع و محل کے مطابق آیات کریمہ واحادیث شریفہ کے ذریعہ خطبات کو مزین کیا گیا علاوہ ازین مقصد کو ذہن نشین کرنے کے لئے تمثیلات کا بھی انتخاب کیا گیا۔۴۔ غوث ِپاک کے یہ خطبات ’’ إنّ من الشعر لحکمۃ وإنّ من البیان لسحراً ‘‘ کے مصداق ہیں۔۵۔ آج کے اس پرفتن دور میں ان خطبات کا تحقیقی مطالعہ ملت اسلامیہ کے کے خضر راہ ہے۔
الفتح الرَّباَّنی کو دیگر خطبات کے مقابل ایک نمایاں مقام حاصل ہے اللہ رب العزت نے غوثِ پاک کو جملہ علوم وفنون میں امامت کا درجہ عطا فرمایا علاوہ ازیں آپ کو فن خطابت میں وہ ملکہ عطا کیا جو کسی اور کو نہیں ۔اس کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں دین اسلام کے وہ اسرار ورموزبیان کئے جو کسی اور نے بیان نہیں کیں آپ کے خطبات افراط و تفریط سے پاک اور ’’ دریابکوزہ ‘‘ کے مصداق ہیں بالخصوص آپؓ نے خطبات میں قرآن کریم و احادیث شریفہ کی جو نفیس وانوکھی تشریحات کی ہیں اُن کی مثال مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔جب ہم ان خطبات کا تحقیقی مطالعہ کریں گے تویہ بات واضح ہوجائے گی کہ ان خطبا ت کی اہمیت و افادیت آج بھی بدستورباقی ہے ۔
غوث اعظم ؓمسلمانوں کے علمی، عملی روحانی و اخلاقی اقدار کے زوال پر دلگیر ہوتے ہوئے علاوہ ازیں ان کے سنگ دل ہونے اور احکام شرع سے روگردانی پر افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جس طرح دین اسلام کی شبیہ کوفاسق وفاجر اور بدعتی لوگوں نے بگاڑ دیاہے جس کی وجہ سے اسلام گریہ کناں ہے اور مدد کو پکا ر رہا ہے ایسے ہی مسلمانوں کی اخلاقی انحطاط کی وجہ سے اقطاع عالم میں دینِ اسلام کی شبیہ بگڑرہی ہے۔ ایسے انسانوں سے تو وہ کتابہتر ہے جس کا مالک اس کو صرف چند لقمے کھلاتا ہے باوجود یہ کہ وہ کتا اپنے مالک اور اس کے گھر بار کی حفاظت کرتا ہے ۔لیکن اے انسان تو کتنا احسان فراموش ہے کہ رب تجھ کوشکم سیر کرتا ہے باوجود اس کہ تو نہ تو رب کی منشا پوری کرتا ہے اور نہ ہی اس کی نعمتوں کا حق ادا کرتا ہے ‘‘ ۔ ’’ علم چھلکا ہے اور عمل مغز،چھلکے کی حفاظت اس لئے کی جاتی ہے کہ مغزمحفوظ رہے اور مغزکی اس لئے کہ اس سے تیل نکالا جائے وہ چھلکا کس کام کا جس میں مغزہی نہ ہو ‘‘ ۔ الفتح الرَّباَّنی کے ذکر کردہ اقتباسات کے ذریعے یہ بات عیاں ہوگئی کہ اس علمی قحط الرجال اور جہالت کے دور میں ’’الفتح الرَّباَّنی ‘‘ میںموجود تعلیمات کی اشد ضرورت ہے۔ آج علمی مغالطَوںکو خطبات ِغوثِ اعظم کی صداقت فکر چاہئے آج ابن الوقت صوفیاء کو راہ راست دکھانے کے لئے ’’الفتح الرَّباَّنی ‘‘ کا مطالعہ در کا رہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان خطبات کو عام کیا جائے اور اس کو نصاب ترتیب بنایا جائے۔