الیکشن سے پہلے یا بعد بی جے پی میں پھوٹ کا اندیشہ!

   

عرفان جابری
اس سرخی پر قارئین کرام کو تعجب ہورہا ہوگا۔ جی ہاں! اگر کسی کو اس موضوع کا پہلی بار سامنا ہے تو ضرور تعجب خیز رہے گا۔ لیکن میں ایسا سمجھنے پر کیوں مائل ہورہا ہوں، آئیے اس کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں چاہے وہ 2019ء کے عام انتخابات سے پہلے ہوں یا فوری بعد، موجودہ طور پر برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں پھوٹ کے اندیشوں کی سب سے بڑی وجہ وزیراعظم نریندر مودی بمقابلہ آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) ہے۔ اس بات سے شاید ہی کوئی انکار کرسکتا ہے کہ بی جے پی دراصل آر ایس ایس کا سیاسی روپ ہے اور ہندوستان میں جب بھی اور جہاں بھی بی جے پی کو اقتدار ملا تو اس میں آر ایس ایس اور اس کی محاذی تنظیموں جیسے وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) ، بجرنگ دل وغیرہ کا قابل لحاظ تعاون عمل شامل رہا ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم آر ایس ایس کو بی جے پی اور تمام محاذی تنظیموں کیلئے مادر تنظیم قرار دے سکتے ہیں۔ اگر کوئی بھی تنظیم یا شخصیت اپنی مادر تنظیم کو خاطر میں نہ لائے اور خود کو مختار کل سمجھنے لگے تو پھر سنگین مسائل کا پیدا ہونا لازمی ہے۔

کسے نہیں معلوم کہ 2013ء میں لال کرشن اڈوانی جیسے سینئر ترین پارٹی لیڈر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چیف منسٹر گجرات نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا گیا تو یہ بلاشبہ آر ایس ایس کی تائید و حمایت سے ہوسکا۔ جب مودی وزیراعظم بن گئے تو اُن کے تیور یکسر بدل گئے۔ یا ہوسکتا ہے وہ شروع سے یہی خصلت کے شخص رہے لیکن گجرات کی حد تک محدود رہنے سے بقیہ ہندوستان کو کچھ زیادہ اندازہ نہیں تھا۔ اُن کی شخصی خوبیاں و خامیاں زیادہ صاف طور پر ظاہر ہونے لگیں۔ یہ تو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ وہ دُھن کے پکے، بلند حوصلہ، ثابت قدم ہیں اور گجراتی و ہندی میں خطاب سے عوام کو خاصا متاثر کرسکتے ہیں۔ ان کی منفی باتوں یا خامیوں کے بارے میں جانکاری منظرعام پر نہیں آئی تھی۔ تاہم، 26 مئی 2014ء کو وزیراعظم کی حیثیت سے حلف برداری کے بعد سے تاحال نہ صرف بی جے پی، آر ایس ایس، محاذی تنظیموں بلکہ بقیہ ہندوستان اور بیرونی دنیا کو بھی سمجھ آگیا ہے کہ وہ نہایت ضدی، سرکش، مغرور، متکبر، خودغرض، ہٹ دھرم، مکار، جھوٹے، عوام و خواص کے تئیں بے وفا، منفی سوچ کے حامل، بڑوں کے تعلق سے بے ادب اور احسان فراموش شخص ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اُن کا چیف منسٹر گجرات بننا اور پھر 2002ء کے گودھرا فسادات کے بعد اُن کی وزارت اعلیٰ برقرار رہنا ایل کے اڈوانی کی مرہون منت ہے لیکن وزارت عظمیٰ امیدوار بننے کے بعد سے اڈوانی اور دیگر کئی سینئر پارٹی قائدین کے ساتھ اُن کا برتاؤ کس حد تک ہتک آمیز رہا، اس کی تفصیل میں جانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔
اسی نوعیت کا طرزعمل وزیراعظم مودی نے آر ایس ایس اور محاذی تنظیموں کے ساتھ روا رکھا۔ پراوین توگاڑیا (وی ایچ پی) جیسے لیڈروں کو تک وزیراعظم سے ملاقات کا وقت طے کرنے کیلئے ہفتوں بلکہ مہینوں ٹالا جاتا رہا۔ آر ایس ایس سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن طرزعمل کے معاملے میں ڈسپلن شکنی ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ بے شک آر ایس ایس کی سوچ تخریبی ہے لیکن اُن کے ڈسپلن کی مثال دی جاسکتی ہے اور تقلید بھی کی جاسکتی ہے۔ جب وزیراعظم مودی نے سرسنگھ چالک موہن بھگوت اور دیگر آر ایس ایس قیادت کو نظرانداز کرنا شروع کیا تو پھر سنگھ کو متبادل امکانات پر غوروخوض کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ 2016ء میں ایک موقع پر وزیراعظم مودی نے آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر والے شہر ناگپور (مہاراشٹرا) کا دورہ کیا جس کا بنیادی مقصد سنگھ کی قیادت سے ملاقات کرنا تھا۔ سنگھ کو مودی کے گھمنڈ، غرور و تکبر کا سامنا ہوا۔ سابق میں اٹل بہاری واجپائی ہوں یا کوئی بھی سینئر بی جے پی لیڈر جب کبھی ناگپور جاتے تو وہ بہ نفس نفیس آر ایس ایس ہیڈکوارٹر پہنچ کر سنگھ کی قیادت سے ملاقات کرتے رہے۔ لیکن اس مرتبہ ایسا ہوا کہ ناگپور پہنچنے کے بعد مودی کے قیام کا جس جگہ انتظام کیا گیا، انھوں نے وہیں پر موہن بھگوت و دیگر سنگھ قائدین کو آکر ملاقات کرنے کیلئے کہا۔ یعنی وہ آر ایس ایس ہیڈکوارٹر نہیں جائیں گے بلکہ سنگھ کے قائدین خود اُن کے پاس آکر ملاقات کریں۔ اس تبدیلی سے سنگھ کے قائدین کو کچھ پیشگی واقف کرا دیا گیا تھا۔ ظاہر انھوں نے مودی کے رویہ کو پورے سنگھ کی ہتک محسوس کی اور ایسی چال چلی کہ وزیراعظم بھی دیکھتے رہ گئے۔ موہن بھگوت اور تمام دیگر سینئر سنگھ قائدین اُس موقع پر ناگپور سے باہر جاکر مصروف ہوگئے اور وزیراعظم مودی سنگھ والوں سے ملاقات کئے بغیر لوٹ آئے۔ اسی طرح ساڑھے چار سال کے دوران کئی موقعوں پر چاہے وہ رام مندر کا موضوع ہو، بی جے پی کا کوئی مسئلہ ہو یا آر ایس ایس کا اندرونی معاملہ ، ہر موقع پر مودی نے اپنی سرکشی دکھائی اور سنگھ پریوار کے ساتھ اُن کی دوریاں بڑھتی گئیں۔ صرف مودی ہی نہیں بلکہ اُن کے چہیتے قائدین جیسے صدر بی جے پی امیت شاہ یا کوئی مرکزی وزیر نے بھی وزیراعظم کی روش کے زیراثر سنگھ کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔

اس لئے آر ایس ایس نے نتن گڈکری کو اُبھارنے اور آئندہ بی جے پی کو اقتدار ملنے کی صورت میں مودی کی جگہ اُن کو ہی وزیراعظم بنانے کا من بنالیا ہے۔ گڈکری کے انتخاب کی چند وجوہات ہیں۔ سب سے مقدم اُن کا ناگپور یعنی آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر والے شہر سے تعلق ہونا ہے۔ گڈکری سنگھ سے وابستگی کے معاملے میں مودی کے مقابل زیادہ سنجیدہ ہیں۔ موہن بھگوت زیرقیادت سنگھ کو گڈکری پر پورا بھروسہ ہے۔ وہ ہٹ دھرم نہیں، آر ایس ایس ہو کہ بی جے پی سینئر اور جونیئر کے ساتھ باوقار تال میل رکھنا جانتے ہیں، وہ موجودہ مرکزی حکومت میں کامیاب ترین وزیر کہے جائیں تو بیجا نہ ہوگا۔ انھوں نے وزیر روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کی حیثیت سے اطمینان بخش کارکردگی پیش کی ہے۔ سنگھ اور بی جے پی کے اعتبار سے اُن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بہ یک وقت وہ سنگھی ہیں اور زیادہ تر کوٹ زیب تن کرتے ہوئے کارپوریٹ دنیا حتیٰ کہ اپوزیشن قائدین کے ساتھ بھی اچھا تال میل رکھتے ہیں۔ چنانچہ گڈکری بی جے پی کے متبادل اعلیٰ لیڈر ہوسکتے ہیں۔ تاہم، مرکزی حکومت اور بی جے پی میں مودی اور امیت شاہ کی قیادت کے رہتے ہوئے آر ایس ایس یا نتن گڈکری کیلئے سیاسی پیش قدمی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
نریندر مودی بمقابلہ نتن گڈکری کے دو امکانات ہوسکتے ہیں۔ اول یہ کہ جب لوک سبھا الیکشن کیلئے بی جے پی میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آئے گا تو مودی اور امیت شاہ ظاہر ہے اپنے من چاہے امیدواروں کو نامزد کرنا چاہیں گے تاکہ معلق لوک سبھا کی صورت میں بی جے پی ایم پیز کی وفاداری مودی اور امیت شاہ کیلئے برقرار رہے۔ مگر آر ایس ایس اور گڈکری چاہیں گے کہ پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں اُن کی رائے کو بھی قابل لحاظ حد تک اہمیت دی جائے کیونکہ الیکشن کے بعد ضرورت پڑنے پر منتخب بی جے پی ارکان کو وہ اپنی طرف کھینچنا چاہیں گے۔ بی جے پی کو 2014ء کے الیکشن میں 282 لوک سبھا نشستیں حاصل ہوئی تھیں لیکن جس طرح وزیراعظم مودی نے اپنی میعاد میں حکومت چلائی اور جس طرح چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان کے حالیہ اسمبلی چناؤ کے نتائج سامنے آئے، اس تناظر میں یہ لگ بھگ ناممکن ہے کہ چار ماہ بعد مودی کی بی جے پی دوبارہ سادہ (272) اکثریت حاصل کرپائے گی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق 2019ء جنرل الیکشن میں بی جے پی 50-150 نشستیں کھودے گی یعنی وہ 150 کے آس پاس ہوگی۔ کانگریس کی موجودہ عددی طاقت 50 سے کم ہے، اسے الیکشن میں یقینا فائدہ ہونے والا ہے لیکن ایسا نہیں کہ سادہ اکثریت (272) تک پہنچ جائے۔ اسے لگ بھگ 100 نشستوں کا فائدہ ہوتا ہے تو وہ بھی 150 کی عددی طاقت کے آس پاس ہوگی۔ باقی رہ جاتی ہیں تقریباً 240 نشستیں۔ بہ الفاظ دیگر اس مرتبہ مخلوط حکومت بننا طے ہے جو کانگریس یا بی جے پی کی تائید و حمایت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ حکومت یا تو بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے کی ہوگی یا پھر کانگریس کی سربراہی والے یو پی اے کی رہے گی۔ جب مخلوط حکومت کیلئے مذاکرات کا معاملہ آئے گا تو ہندوستان کی زیادہ تر پارٹیاں یا تو یو پی اے کیساتھ چلیں گے یا پھر این ڈی اے کیساتھ جانا ہو تو مودی اور امیت شاہ کی قیادت سے دور رہنا چاہیں گے۔ یہی وہ صورتحال (دوسرا امکان) ہے جو آر ایس ایس دیکھنا چاہے گا اور نتن گڈکری کو متبادل لیڈر کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ ظاہر ہے یہ ’خودغرض‘ مودی کیلئے ناقابل برداشت ہوگا؛ تب وہ اور کچھ نہیں تو بی جے پی میں پھوٹ ڈالنے اور گڈکری کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے!
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com