امریکہ میں جو بائیڈن کی فتح

   

Ferty9 Clinic

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھے جانے والے امریکہ میںرائے دہی کے چار دن بعد انتہائی تجسس اور تعطل اس وقت ختم ہو جب بالآخر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کی صدارتی انتخابات میں کامیابی کا اعلان کردیا گیا ۔ ووٹوں کی گنتی کے وقت سے ہی موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ مسلسل انتخابات کی غیر جانبداری پر سوال اٹھا رہے تھے ۔ اس طرح انہوں نے بالواسطہ طور پر اپنی شکست کا اعتراف کرلیا تھا ۔ اب انہوں نے انتخابات کے نتائج کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے ۔ یہ انتخابات میں ناکامی اور شکست کی خفت مٹانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے تاہم ایک بات طئے ہوچکی ہے کہ امریکہ کے آئندہ صدر جو بائیڈن ہونگے ۔ جو بائیڈن کی دنیا کیلئے اور خود امریکہ کیلئے ترجیحات کیا ہوسکتی ہیں یہ ابھی سے قیاس کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ امریکی صدر کی ترجیحات ہمیشہ ہی عوام کی سمجھ سے بالاتر رہی ہیں۔ تاہم دنیا میں ٹرمپ کی شکست پر جس رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ من مانی اور بے ڈھنگے فیصلوں کو کسی ملک کے باشعور عوام پسند نہیں کرتے اور جب ان کے پاس ووٹ ڈال کر رائے دینے کا موقع آتا ہے تو وہ اس کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ایسے فیصلے کرنے والوں کو سبق ضرور سکھاتے ہیں۔ جو بائیڈن دنیا اور امریکہ کیلئے اچھے ثابت ہونگے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتاسکتا ہے لیکن یہ بات ضرور امریکی صدارتی انتخابی نتائج سے ثابت ہوگئی ہے کہ احمقانہ فیصلے اور تکبر سے بھرپور چال ڈھال کو عوام پسند نہیں کرتے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے جس وقت صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اس وقت سے ہی وہ دنیا میں ناپسندیدہ ترین قائدین کی فہرست میں آگے بڑھتے جا رہے تھے ۔ خود امریکہ میں بھی وہ انتہائی غیر مقبول صدر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن کو امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ یہ ڈونالڈ ٹرمپ سے امریکی عوام کا اظہار بیزارگی تھا ۔ حالیہ عرصہ میں کورونا وائرس سے نمٹنے میں بھی ٹرمپ نے جس طرح کے فیصلے کئے تھے ان کی وجہ سے بھی انہیں امریکی عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار میں مسلم دنیا کو سب سے زیادہ نقصان کا شکار کیا ہے ۔ انہوں نے صیہونی مملکت اسرائیل کی کٹھ پتلی کی طرح کام کرتے ہوئے مختلف عرب ملکوں پر اثر انداز ہو کر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبو رکردیا تھا ۔ اسرائیل کو مختلف عرب ممالک نے یکے بعد دیگر تسلیم کرلیا ۔ یہ در اصل امریکہ اور خاص طور پر ڈونالڈ ٹرمپ کے دباو ہی کا نتیجہ تھا کہ عرب ممالک نے اپنے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے فلسطینی کاز کو داو پر لگادیا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے ہی میں عافیت محسوس کی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہر موقع پر مسلمانوں اور مسلم دنیا کے تعلق سے منفی انداز ہی اختیار کیا تھا ۔ دنیا بھر میں مسلمانوںکی تباہی پر انہوں نے آواز اٹھانا ضروری نہیں سمجھا اور جو آوازیں مسلمانوں کیلئے اٹھائی گئی تھیں ان کو بھی دبانے اور کچلنے میں ٹرمپ نے اہم رول ادا کیا تھا ۔ امریکہ میں فی الحال جو حالات ہیں وہ بھی خود امریکی عوام کیلئے اچھے نہیںکہے جاسکتے ۔وہاں کورونا وائرس کی وجہ سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ لاکھوں افراد بیروزگار ہوگئے ہیں۔ بیروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ امریکی عوام میں احساس تحفظ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ گن کلچر کو فروغ حاصل ہو رہا ہے ۔ سیاہ فام باشندوں کے خلاف نسلی جرائم میںاضافہ ہو رہا ہے ۔ ان کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والوںکو بھی برداشت نہیں کیا جا رہا ہے اور انہیں بھی ختم کیا جا رہا ہے ۔ یہ سارا کچھ ہوتا رہا اور ڈونالڈ ٹرمپ اپنی ہی دنیا میں مگن صدارتی محل میں پرسکون بیٹھے رہے ۔
ٹرمپ امریکی عوام کی امیدوں اور توقعات پر پورے نہیں اترسکے ۔ انہوں نے امریکہ کے دوست ممالک کے ساتھ بھی ایسا رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے کئی ملکوں سے اچھے تعلقات میںکشیدگی پیدا ہوگئی ۔ تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے ۔ امریکہ میں ایک طرح کا عدم استحکام پیدا ہونے لگا تھا جسے وہاں کے باشعور عوام نے محسوس کرلیا اور تقریبا تین دہائی کا عرصہ ہوگیا جب موجودہ صدر کو پہلی معیاد ہی کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ امریکی عوام نے جس رائے کا اظہار کیا ہے اور جس سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا ہے وہ دنیا بھر کیلئے بھی ایک مثال ہوسکتا ہے اور احمقانہ فیصلے اور تکبرانہ روش اختیار کرنے والوں کیلئے یہ فیصلہ نوشتہ دیوار ہوسکتا ہے ۔