امریکہ میں کورونا اور ملک گیر مظاہرے کے دوران انتخابی اتھل پتھل جاری

,

   

جو بائیڈن نامزدگی کے قریب،اقتصادی دباؤ اور بیروزگاری کیساتھ سوپر پاورکو بیک وقت متعدد چیلنجس کا سامنا

واشنگٹن ۔ 4 جون (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی پولیس کی حراست میں موت پر پورے ملک میں احتجاج جاری ہے اور متعدد مقامات پر مظاہروں نے پرتشدد شکل اختیار کرلی ہے۔بہت سے شہروں میں کرفیو کا نفاذ کردیا گیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور نیشنل گارڈز کی تعیناتی کی گئی ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کی برہمی بظاہر اپنی جگہ قائم ہے اور وہ انصاف اور نسلی مساوات کے لئے اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔یہ مظاہرے ایسے وقت شروع ہوئے ہیں جب پورا ملک پہلے ہی کرونا وائرس کی وبا سے نبرد آزما ہے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اقتصادی دباؤ اور بیروزگاری کی لپیٹ میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق، مظاہروں میں شریک لوگ ہزاروں کی تعداد میں ایک دوسرے کے قریب جمع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ اس سے کرونا وائرس کی دوسری لہر جنم لے سکتی ہے۔وائٹ ہاوس میں کرونا وائرس ٹاسک فورس کی سربراہ ڈاکٹر ڈیبورا برکس کا خیال ہے کہ وسیع بنیاد پر ٹیسٹ سے وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں کرونا وائرس سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگ موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسی دوران مظاہروں کی گونج میں نومبر کے صدارتی انتخاب کے سلسلے میں آٹھ ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی میں ووٹرز نے پرائمری الیکشن میں منگل کے دن اپنا ووٹ ڈالا۔ماہرین اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ بندشوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اقتصادی سرگرمیوں میں روک لگ جانے سے پہلے ہی چار کروڑ سے زیادہ لوگ بیروزگاری کا شکار ہوچکے ہیں اور کانگریس میں ڈیموکرٹیک ارکان کا کہنا ہیکہ تین ٹریلین ڈالر کی امدادی رقم ناکافی ہے۔ مبصرین کے مطابق، اس وقت امریکہ کو گویا تین اطراف سے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

ایک طرف کرونا کی ہولناک وبا ہے تو دوسری جانب درجنوں ریاستیں مظاہروں کی لپیٹ میں ہیں اور پھر نومبر کے انتخابات کے پس منظر میں سیاسی اتھل پتھل الگ جاری ہے۔ دوسری طرف منگل کو امریکہ کی سات ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری انتخاب ہوئے۔ ملک میں احتجاجی مظاہروں اور کرونا وائرس کی وبا کے باوجود عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ توقع ہے کہ نومبر کے صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ کا مقابلہ جو بائیڈن سے ہوگا۔منگل کو ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری انتخاب میں جو بائیڈن کو مزید ایک سو ڈیلیگیٹس کے ووٹ حاصل ہو گئے۔ اگلے ہفتے ویسٹ ورجینیا اور جارجیا کی ریاستوں میں پرائمریز ہوں گے اور ان کے بعد خیال کیا جاتا ہے کہ بائیڈن کی نامزدگی یقینی ہو جائے گی۔منگل کو ہونے والی ووٹنگ ایک طرح سے ووٹروں کا امتحان تھی۔ کرونا وائرس کی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کے ساتھ ملک میں مظاہرے اور کرفیو جیسی رکاوٹوں کے باوجود امریکی عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔لوگوں نے گھنٹوں قطاروں میں لگ کر انتظار کیا۔ تقریباً اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ نومبر کے صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ اور جو بائیڈن آمنے سامنے ہوں گے۔تاہم، دونوں جماعتوں کے ضابطوں کے تحت دونوں امیدواروں کے لیے لازم ہے کہ ان کے پاس ڈیلیگیٹس کی اکثریت ہو۔ اس لیے پورا مہینہ تمام ریاستوں میں پرائمریز کا سلسلہ جاری رہے گا۔ٹرمپ کو مارچ میں اپنی ری پبلکن جماعت کی حمایت حاصل ہو گئی تھی کہ وہ ری پبلکن جماعت کی طرف سے صدارتی عہدے کے امیدوار ہوں گے۔