امریکی شرحیں اور تجارتی مشکلات

   

دل کو، جگر کو ، روح کو تڑپارہا ہے کون
بڑھتی مشکلات میں مجھے یاد آرہا ہے کون
اب دنیا بھر میں تجارتی اور معاشی اتھل پتھل کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک پر تجارتی شرحیں عائد کردی گئی ہیں۔ مختلف ممالک سے جو مال و اسباب امریکہ کو درآمد کیا جاتا ہے اس پر شرحیں عائد کی گئی ہیں اور ان کا استدلال تھا کہ یہ امریکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ضروری تھا ۔ انہوں نے دعوی کیا ہے کہ کئی ممالک پر ایسی شرحیں عائدکی گئی ہیں جو خود ان ممالک میں امریکی مصنوعات پر عائد کی جاتی ہیں۔ اس طرح انہوں نے جیسے کو تیسا کا موقف اختیار کرنے کا دعوی کیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں مختلف اقدامات کے ذریعہ اتھل پتھل کا آغاز کرچکا ہے ۔ کئی فیصلے ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری معیاد میںایسے کئے گئے ہیںجن کے نتیجہ میں دنیا میںمشکل صورتحال پیدا ہونے کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں اور جغرافیائی تبدیلیوں کے تعلق سے بھی شبہات ظاہر کئے جانے لگے ہیں۔ تاہم تجارتی تنازعہ کا آغاز دنیا بھر میںمعاشی اور تجارتی مشکلات کا آغاز کہا جا رہا ہے ۔ اسے ایک طرح سے تجارتی جنگ قرار دیا جا رہا ہے ۔ ٹرمپ نے امریکہ کے موقف میںسختی پیدا کرتے ہوئے چین ‘کناڈا اور ہندوستان سمیت درجنوںممالک پر یہ شرحیں عائد کی ہیں اور انہوں نے جس دن شرحوں کا اعلان کیا اس دن کو امریکہ کیلئے آزادی سے تعبیر کیا گیا ۔ اس طرح انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ امریکہ اب تک تجارتی شرحوں کے جال میں پھنسا ہوا تھا ۔حالانکہ ڈونالڈ ٹرمپ بھی چار سال امریکہ کے صدر رہ چکے تھے تاہم اس وقت انہوں نے ان شرحوں کے تعلق سے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور نہ دوسرے ممالک پر بھاری شرحیں عائد کی گئی تھیں۔ تاہم اپنی دوسری معیاد میںجارحانہ تیور کے ساتھ ٹرمپ کے بیشتر فیصلے دنیا بھر میں اتھل پتھل مچانے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ گرین لینڈ جزائر کے تعلق سے ہوں یا پھر غزہ کا کنٹرول حاصل کرنے کا منصوبہ ہو۔ چاہے وہ کناڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانے کا اعلان ہو یا پھر غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ سے واپس کردینے کا مسئلہ ہو یہ فیصلے انتہائی جارحانہ ہیں۔
امریکہ کی جانب سے کئے گئے اعلان کے بعد دنیا کے دوسرے ممالک نے بھی جوابی اقدام کے طور پر امریکی مصنوعات پر بھاری شرحیں عائد کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ ٹرمپ کے اعلان کے فوری بعد کناڈا کی جانب سے امریکہ پر اضافی شرحیں عائد کردی گئی تھیں اور اب چین نے بھی امریکی مصنوعات پر 34 فیصد تک شرحیں عائد کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ دوسرے ممالک کی جانب سے بھی امریکی فیصلے کے اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ان کی معیشت کس حد تک متاثر ہوگی ۔ اس کا جائزہ لینے کے بعد یہ ممالک بھی امریکی مصنوعات پر شرحیں عائد کرنے کے تعلق سے غور کر رہے ہیں۔ بحیثیت مجموعی کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے شرحیں عائد کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں تجارتی سرگرمیاں ماند پڑسکتی ہیں ۔ کئی ممالک کی معیشت اس کے نتیجہ میں درہم برہم ہو سکتی ہے اور یہ بھی شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ عالمی معیشت پر صرف چند ممالک ہی غلبہ حاصل کر پائیں گے ۔ جو امریکہ کے ساتھ تجارتی امور میں مقابلہ کرسکتے ہیں وہ ممالک اپنی معیشت کو مستحکم رکھنے اور منفی اثرات سے ممکنہ حد تک بچنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن جن ممالک کا موقف کمزور ہے وہ مزید کمزور ہوسکتے ہیںاور امریکہ کا دوسرے ممالک ان کی معیشت کو بری طرح سے متاثر کرسکتے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو عالمی سطح پر معاشی توازن کو بگاڑنے کی وجہ بن سکتی ہے اور اس کے بالواسطہ اثرات عوام پر مرتب ہوسکتے ہیں۔
دنیا بھر کے اہم ممالک کیلئے ضروری ہے کہ وہ ٹرمپ کی جانب سے عائد کی گئی شرحوں کا بغور جائزہ لیں۔ اس کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ اس سے نمٹنے کیلئے ایسے کچھ اقدامات تجویز کئے جائیںجن کے نتیجہ میں عالمی معاشی توازن بگڑنے سے بچ جائے ۔ کمزور اور معاشی مسائل کا شکار ممالک کی معیشت پر اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔صرف چند مٹھی بھر ممالک کے فائدہ کیلئے دنیا کے درجنوں ممالک اور وہاں کے کروڑ وں عوام کو مشکلات کا شکار بنادینا درست نہیں ہوسکتا ۔ امریکہ کو بھی اس فیصلے کے مضر اثرات کا جائزہ لینے اور اس کا مداوا کرنے کی ضرورت ہے ۔