ویسے تو انتخابات کے موسم میں اور خاص طور پر انتخابی مہم کے دوران سیاسی قائدین اور پارٹی امیدواروں کے تیور بہت جارحانہ ہوتے ہیں اور وہ عوامی تائید کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے ۔ ایسے ایسے بیانات دیتے ہیں جن پر خود انہیں بعد میں شرمندگی محسوس ہوتی ہے ۔ بسا اوقات انہیں معذرت خواہی بھی کرنی پڑتی ہے ۔ کچھ قائدین اور پارٹی امیدوار ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی کسی بھی بات پر پشیمانی کا احساس نہیں کرتے اور وہ اپنے بے تکی باتوں پر مصر بھی رہتے ہیں۔ اس سے عوام میں ان کی امیج متاثر ہوتی ہے جس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں رہتی ۔ انہیں اپنی عوامی امیج کو بہتر بنانے سے بھی کوئی سروکار نہیں رہ جاتا ۔ انتخابات کا عمل مکمل ہوتے ہی وہ اپنی مصروفیات میں محو ہوجاتے ہیں اور انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کس طرح کے ریمارکس یا بیان بازیاں کی تھیں۔ اب جبکہ ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں انتخابی مہم شدت اختیار کرتی جارہی ہے ۔ تقریبا تمام پارٹیوں نے اپنی مہم میں تیزی پیدا کردی ہے ۔ بیشتر امیدوار سرگرم ہوچکے ہیں اور وہ عوام میں پہونچتے ہوئے اپنے حق میں انہیں ہموار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں کئی امیدوار ایسے بھی ہیں جو اپنا آپا کھوتے جا رہے ہیں۔ بے ہنگم اور بیہودہ قسم کے بیان بھی عام ہوتے جا رہے ہیں ۔ ریاست یا بالواسطہ طور پر مخالفین کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ رائے دہندوں کو بھی دھمکانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ انہیں یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ اگر انہوں نے ایک مخصوص امیدوار یا پارٹی کے حق میں ووٹ نہیں دیا تو انہیں اس کے عواقب کا سامنا کرنا بھی پڑسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ عوام کے مذہبی اور روایتی جذبات کا بھی استحصال کیا جا رہا ہے ۔ انہیں حقیقی مسائل پر توجہ دینے سے بھٹکایا جا رہا ہے ۔ ان کے سامنے ایسے مسائل پیش کئے جا رہے ہیں جن کا رائے دہندوں کی بہتری اور ریاست کے مستقبل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صرف سیاسی مقصد براری کے کام آتے ہیں اور سیاسی جماعتیں ایسے کام کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے جو افسوسناک ہے ۔ مخالفین پر تنقید کرنا ہر سیاسی لیڈر کا حق ہے ۔ یہ انتخابی عمل کا حصہ بھی ہے ۔ تاہم یہ تنقید بھی مہذب انداز میں ہونی چاہئے ۔ مخالف کی پالیسیوں اور پروگرامس کی بنیاد پر ہونی چاہئے ۔ اس کے کام کاج کی بنیاد پر ہونی چاہئے ۔ شخصی طور پر کسی کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی ان کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق ہوتا ہے ۔ تاہم آج کے ماحول کو اس قدر پراگندہ کردیا گیا ہے خود سیاسی جماعتوں کے ذمہ دار قائدین اور عوامی عہدوں پر فائز افراد تک بھی دوسروں کو شخصی بنیادوں پر نشانہ بنانے لگے ہیں۔ ایسے ریمارکس کر رہے ہیں جو باعث افسوس بھی ہے ۔ اپنے پروگرامس اور منصوبے عوام میں پیش کرنے اور اگر برسر اقتدار رہے ہیں تو اپنی اب تک کی کارکردگی کو عوام کے درمیان پیش کرتے ہوئے ان کی تائید و حمایت حاصل کی جانی چاہئے ۔ ان سے ووٹ مانگے جانے چاہئیں۔ تاہم اب شائد ہی کوئی ایسا امیدوار ہو یا شائد ہی کوئی ایسی پارٹی ہو جو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اور اب تک کئے گئے کاموں کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہی ہو۔ یہ ووٹ صرف دوسروں کی مخالفت کی بنیاد پر مانگے جا رہے ہیں اور انہیں شخصی تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہوئے کردار کشی تک سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یہ انتخابی عمل کو کھوکھلا کردینے والا عمل ہے ۔ اس کی ہندوستانی روایات اور اقدار کے ماحول میں کوئی گنجائش یا اجازت ہرگز بھی نہیں دی جاسکتی ۔
ہندوستان ایک مہذب سماج والا ملک ہے ۔ اس میں اختلاف ضرور ہوسکتا ہے ۔ اختلاف رائے کو ذاتی عناد و دشمنی کا رخ ہرگز نہیں دیا جانا چاہئے ۔ کوئی عوام سے رجوع ہوتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کا حق ہے ۔ ملک کی جمہوریت کیلئے یہ ضروری بھی ہے اور اس کے ذریعہ ہی حکومتوں کی تشکیل عمل میں لائی جاتی ہے ۔ تاہم ہر سیاسی جماعت اور امیدوار کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اقدار اور اخلاق کو پامال کرنے سے گریز کرے ۔ بعد میں شرمندگی محسوس کرنے کی نوبت نہ آنے پائے اور عوام میں بھی ایک طرح کی بے چینی پیدا ہونے نہ پائے ۔ انتخابی فائدہ کیلئے تہذیب کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے ۔