انصاف و قانون پر ایقان مضبوط

   

قانون و انصاف کے حصول کے لیے سرگرداں عوام کے لیے نربھئے کیس اور اناؤ عصمت ریزی معاملہ پر عدالتوں کے فیصلے اطمینان بخش ہیں ۔ ملک کی عدالتوں میں انصاف ہورہا ہے ۔ عدلیہ کی تاریخ میں اب تک کئی اہم فیصلے ہوئے ہیں ، لیکن عصمت ریزی اور قتل جیسے گھناونے واقعات کی سرکوبی کے لیے سزائے موت کا فیصلہ قابل خیر مقدم ہوتا ہے ۔ نربھئے کیس کے چار ملزمین کو بھی 22 جنوری کی صبح 7 بجے تہاڑ جیل میں پھانسی دئیے جانے کا فیصلہ ملک کے عوام کے لیے خاص کر ان افراد کے لیے جو قانون و انصاف پر یقین رکھتی ہیں ایک قابل خیر مقدم اقدام ہے ۔ عدالت کی جانب سے نربھئے کیس کے تمام چار ملزمین کو پھانسی کی سزا دینے کے لیے وارنٹ جاری کرنے کا آج ہر گوشے سے خیر مقدم کیا جارہا ہے ۔ اپوزیشن پارٹی کانگریس نے عدالت کے اس فیصلہ کو ملک کے لیے اطمینان بخش قرار دیا ۔ لیکن عدالت سے فیصلہ کے حصول میں تاخیر پر افسوس بھی ظاہر کیا جارہا ہے ۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف رسانی کو یقینی بنانے سے انکار سمجھا جاتا ہے ۔ اس فیصلہ کے بعد گھناونے واقعات کس قدر کمی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ اس فیصلہ نے ملک میں انصاف کے نقش چھوڑے ہیں ۔ اب عدلیہ پر کامل ایقان رکھنے والوں کو خوشی ہورہی ہے کہ قانون اور عدلیہ کا وقار بلند رکھا گیا ہے ۔ عصمت ریزی کے کیسوں کو قانون کی سنگین وادیوں سے گذرنا پڑتا ہے ۔ برسوں اس طرح کے کیسوں پر بحث ہوتی ہے ۔ جبر کے خلاف احتجاج کرنے کے باوجود اس طرح کے گھناونے واقعات کا سلسلہ کم نہیں ہوتا ۔ نربھئے اور اناؤ کیس میں عدالتوں کا فیصلہ دراصل حیدرآباد میں ایک وٹرنری ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور قتل واقعہ کے بعد فوری طور پر سامنے آیا ہے ۔

عوام اور میڈیا کی جانب سے عدالتوں پر انصاف کرنے کے لیے دباؤ بڑھنے لگا تھا ۔ نومبر 2019 کو حیدرآباد میں عصمت ریزی کے واقعہ نے سارے ملک کو دہلا دیا تھا ۔ اس کے بعد اترپردیش میں اناؤ عصمت ریزی واقعہ میں بچ جانے والی متاثرہ کا قتل واقعہ بھی ملک بھر میں شدت سے غم و غصہ کا سبب بن گیا تھا ۔ جس کے بعد ہی عدلیہ کی در و دیواروں پر عوام کے احتجاج اور انصاف رسانی کے لیے بلند ہونے والے نعروں پر باز گشت سنائی دینے لگی تھی ۔ حالیہ دنوں میں عدالتوں کے دو فیصلوں نے عوام میں اطمینان پیدا کردیا ہے ۔ ایک کیس نربھئے کا ہے جس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے ۔ دوسرا کیس اناؤ کا جہاں دہلی عدالت نے فیصلہ سنایا ۔ اس کیس میں بی جے پی کے رکن اسمبلی کلدیپ سینگر کو ماخوذ کیا گیا ہے ۔ اس طرح ملک میں یکساں انصاف فراہم کرنے سے متعلق اہم سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ نربھئے کیس میں عدالت کے فیصلہ کا خیر مقدم کرنے والوں نے انصاف بہم پہونچانے میں کی گئی تاخیر پر بھی افسوس ظاہر کیا ہے ۔ نربھئے کیس کے تمام چار ملزمین کو سزائے موت دینے سے عوام کے اندر ایک اعتماد پیدا ہوجائے گا اور خواتین میں تحفظ کا احساس بھی مضبوط ہوگا ۔ عدلیہ پر عوام کے ایقان کو مضبوط بنانے میں بھی مدد ملے گی ۔ دارالحکومت دہلی میں 16 دسمبر 2012 کو 23 سالہ پیرا میڈیکل اسٹوڈنٹ کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی تھی اور اس کو شدید زخمی کردیا گیا تھا جس میں اس کی موت واقع ہوئی تھی ۔ 6 ملزمین کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کو جنسی حملے و قتل کے الزامات میں ماخوذ بھی کیا گیا ۔ جب کہ ایک ملزم نابالغ ہونے سے بچ گیا جب کہ دوسرے ملزم نے تہاڑ جیل میں پھانسی لے لی تھی ۔ نربھئے کیس پر سارے ملک میں یہی رائے قائم ہوئی تھی کہ ملزمین کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہئے لیکن عدالتوں میں کیس کو اس طرح گھسیٹا گیا کہ اس پر فیصلہ کرنے میں تاخیر ہوئی اور جب نربھئے کی طرح دیگر کیس ہونے لگے تو عدلیہ پر دباؤ بڑھ گیا کہ وہ فوری طور پر فیصلہ کرے ۔ چار ملزمین کو ستمبر 2013 میں تحت کی عدالت نے سزائے موت دی تھی جس کے بعد مارچ 2014 دہلی ہائی کورٹ نے اس کی توثیق کردی ۔ مئی 2017 میں سپریم کورٹ نے بھی سزائے موت کو برقرار رکھا ۔ عصمت ریزی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سزائیں دینے کو یقینی بنانا اسلام کی روشنی میں اہمیت رکھتا ہے ۔ زانیوں کو سزائے موت دینے کا حکم ہے ۔ یہی حکم عدالتوں کے ذریعہ صادر کرنے سے معاشرہ میں اطمینان کی فضا فروغ پائے گی ۔ سخت ترین قوانین سے خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم میں کمی آئے گی اور اس طرح کے جرائم سے نمٹنے میں بھی قانون اور عدلیہ کو سہولت فراہم ہوگی ۔