معزز عدالت کے فیصلے نے ملک کے ان تمام فساد متاثرین کے دلو ں میں امید پیدا کی ہے جو آج بھی حصول انصاف کے لئے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔
عدالت نے اپنے ایک اہم فیصلے میں گجرات حکومت کو سال 2002کے فسادات کے دوران اجتماعی ابروز یزی کاشکار بلقیس بانو کو پچاس لاکھ روپئے بطور معاوضہ‘ سرکاری نوکری اور ملازمت فراہم کرنے کا حکم دیاہے۔
بلقیس بانونے معزز عدالت میں ایک پٹیشن داخل کر معاوضہ مانگا تھا۔ درخواست گذار نے عدالت سے اپنی پٹیشن کے ذریعہ یہ بھی کہاتھا کہ گجرات حکومت نے خاطی پولیس عہدیداروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی ہے۔
معاملے کی پچھلی سنوائی کید وران جب عدالت نے حکومت سے ان پولیس افسروں کے خلاف تادیبی کاروائی کو کہا‘ جنھیں ممبئی ہائی کورٹ نے قصور وار ٹہرایاتھا‘ تب حکومت حرکت میں ائی۔چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی‘ جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ کو حکومت گجرات نے جانکاری دی کہ اس معاملے کے تمام خاطی پولیس افسروں کے خلاف کاروائی کی جاچکی ہے۔
بنچ کو بتایا گیاکہ پولیس افسروں کے پنشن فوائد پر روک لگادی گئی ہے اور قصور وار ٹہرائے گئے ایک ائی پی ایس افیسر کو دو رینک کم کردئے گئے ہیں۔
معزز عدالت کے اس فیصلے نے گجرات کے ان ہزاروں فساد متاثرین میں امید کی کرن جگا دی ہے جو آج بھی انصاف پانے کے لئے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔
یہ فیصلہ اس لئے بھی اہم ہے کہ مجرمین کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ معاملے کے چشم دید گواہ اورمتاثر ہ بلقیس بانو اورفساد میں یتیم ہوئے ایک معصوم بچے کو معاملہ واپس لینے کے لئے مسلسل ڈرایا او ردھمکایا گیا۔
ثبوت سے کھلواڑ کیاگیا۔ملزمین کو جب ان پر کوئی زور نہیں چلا توحکمران جماعت نے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ مگر فساد میں اپنا سب کچھ گنو ا بیٹھی بلقیس بانو نے ہمت نہیں ہری۔
انصاف کی امید پوری نہ ہوتے دیکھ انہوں نے ملک کی عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔بلقیس اور اس کے خاندان سے جڑے ہوئے یہ دردناک واقعہ آج سے سترا سال قبل یعینی 3مارچ2002کا ہے‘ جب گودھرا سانحہ کے بعد پورے گجرات فرقہ وارانہ فسادت کی آگ میں جھلس رہا تھا۔
اس وقت بلقیس کی عمر انیس سال تھی جب وہ اور اس کے خاندان کے لوگ چپرواڑی سے پانی وال جارہے تھے‘ اسی وقت فسادیوں نے ان پرحملہ کردیا۔
فسادیوں کے اس حملے میں اٹھ لوگ مارے گئے او رچھ ابھی تک لاپتہ ہیں۔
حملے کے وقت بلقیس چھ ماہ کی حاملہ تھیں۔ فسادیوں نے اس کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی کی۔ اس کے بعد بلقیس او رد و بچے ہی زندہ بچ سکے۔
معاملے میں ممبئی کی خصوصی عدالت نے 21جنوری 2008کو بارہ ملزمین ٹہرایا۔
بعد ازاں ملزمین نے عدالتی فیصلے کو ممبئی ہائی کورٹ میں چیالنج کیا مگر ممبئی ہائی کورٹ نے 4مئی 2007کو ان کے سزا برقرار رکھتے ہوئے بلقیس بانوکے حق میں فیصلہ سنایا۔
اس معاملے میں عدالت نے فرض ادا نہ کرنے او رثبوتو ں سے چھیڑ چھاڑ کرنے پر قصور وار ٹہرایا اور ریاستی حکومت کو ان کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کے احکامات جاری کئے۔
اس کے بعد تمام ملزمین سپریم کورٹ پہنچے‘ لیکن وہاں پر بھی ان کی درخواست خارج کردی گئی۔
بلقیس بانو معاملہ ہی نہیں بیسٹ بیکری کیس میں بھی حالات اسی طرح کے بنے تھے۔
تب بھی ٹھیک اسی طرح سپریم کورٹ نے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے سنوائی کو گجرات کے باہر منعقد کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔
مگر بیسٹ بیکری کے چشم دید گواہ ظہیر شیخ اپنے بیان پر قائم نہیں رہے۔ جس کی وجہہ سے تمام ملزمین ثبوتوں کی کمی کی وجہہ سے بری ہوگئے تھے۔
بلقیس بانو ہی تھی جو بہادری کے ساتھ ملزمین کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہی۔
بلقیس نے ان سترہ سالوں میں عدالتوں کے چکر کاٹنے کے دوران اپنا حوصلہ نہیں کھویا اور اسی وجہہ سے ملزمین کو عمر قید کی سزاء ہوئی اور بلقیس بانو کو واجبی معاوضہ ملا۔