انڈیا اتحاد ‘ افواہیں اور حقائق

   

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
ملک میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے 2024 میں بی جے پی کے خلاف مقابلہ کیلئے انڈیا اتحاد تشکیل دئے جانے کے بعد سے ہی اس کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ اس اتحاد میں شامل جماعتوں کے مابین اختلافات کو ہوا دینے اور دوریاں پیدا کرنے کے منصوبوں کے تحت کام کیا جا رہا ہے ۔ ایک دوسرے کے تعلق سے ذہنوں میں اندیشوں کو تقویت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور میڈیا کے کچھ گوشوں کی جانب سے خاص طور پر افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ بعض بے بنیاد خبروں پھیلاتے ہوئے بھی عوام میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پہلے تو اس اتحاد کو بھانامتی کا کنبہ قرار دیا گیا تھا لیکن جب یہ حقیقت پیش کردی گئی کہ انڈیا اتحاد سے زیادہ این ڈی اے اتحاد میں جماعتیں شامل ہیں تو پھر اس پر خاموشی اختیار کی گئی ۔ پھر اس اتحاد میں اتفاق رائے نہ ہونے کے دعوے کئے گئے جب تمام جماعتوں کے قائدین نے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہوئے آپسی اتحاد کا ثبوت دیا تو افواہیں پھیلانے والوں کے منہ بند ہوگئے ۔ انڈیا اتحاد کے اب تک ہونے والے اجلاسوں میں کسی کی شرکت ‘ کسی کی عدم شرکت ‘ کسی کی جلد واپسی اور کسی کی تادیر موجودگی پر بھی زر خرید میڈیا کے بعض خوشامد پسند اینکرس نے اپنے اپنے انداز میں تبصرے کئے ۔ انڈیا اتحاد میں شامل جماعتیں آپس میں نشستوں کی تقسیم کے مسئلہ پر بات چیت میں بھی مصروف ہیں۔ اس مسئلہ پر بھی اندیشے اور شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ جہاں کچھ ریاستوں میں نشستوں کی تقسیم پر زیادہ مسائل پیش نہیں آئیں گے وہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مغربی بنگال ‘ بہار ‘ دہلی اور پنجاب جیسی ریاستوں میں نشستوں کی تقسیم اس اتحاد میں شامل جماعتوں کیلئے آسان نہیں ہوگی ۔ یہ حقیقت ہے کہ جب کسی ریاست میں ایک سے زائد جماعتیں ہوں اور وہاں انتخابات ہوں تو ہر جماعت کی امیدیں مختلف ہوتی ہیں۔ ہر جماعت کے اپنے دعوے ہوتے ہیں۔ امیدواروں کی موجودگی کا دباؤ ہوتا ہے ۔ عوام کے موڈ کو سمجھنے کی جدوجہد شامل ہوتے ہے ۔ ہر جماعت اس کو پیش نظر رکھتی ہے ۔
ایسے میں اگر کچھ جماعتوں میں نشستوں کی دعویداری زیادہ ہوتی ہے اور ان میں اختلاف رائے ہوتا ہے تو یہ جمہوری عمل کا حصہ ہے ۔ اس کو سیاسی مفاد پرستی کیلئے نشانہ بنانے کی کوشش کم از کم میڈیا کو نہیں کرنی چاہئے ۔ مخالف جماعتیں اگر اس پر تنقید کرتی ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور وہ ایسا بالکل کرسکتی ہیں۔ میڈیا کو اپنی غیر جانبداری کو داؤ پر لگاتے ہوئے چاپلوسی کی حدوں کو پار کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ کچھ سوشیل میڈیا ذرائع سے بھی انڈیا اتحاد کے تعلق سے افواہیں پھیلانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ کہیں مغربی بنگال کے تعلق سے کچھ بے بنیاد دعوے کئے جا رہے ہیں تو کہیں پنجاب اور دہلی کی بات کی جا رہی ہے ۔ کہیں کیرالا میں اختلافات کو ہواد دینے کے منصوبے کے تحت خبریں پھیلائی جا رہی ہیں تو کہیں کسی جلسہ یا ریلی کے عدم اتحاد کو بھی اختلافات سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو انڈیا اتحاد کے مخالفین کی بوکھلاہٹ کو بھی ظاہر کرتی ہیں اور میڈیا کے ڈوغلے پن کو بھی آشکار کرتی ہیں۔ خاص طور پر بی جے پی کی بوکھلاہٹ ان دنوں واضح دکھائی دے رہی ہے ۔ گذشتہ ایک دہے میں یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی کیلئے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا اس کی توقع کے مطابق آسان نہیں رہے گا ۔ عوام کا موڈ تبدیل ہونے لگا ہے ۔ عوام اب مذہبی جذبات کے استحصال کا شکار ہونے کی بجائے بنیادی مسائل پر سوال پوچھنے لگے ہیں۔ حقائق اور دعوے عوام کی سمجھ میں آنے لگے ہیں اور بی جے پی کو اسی پر فکر لاحق ہے ۔
جہاں تک انڈیا اتحاد کی جماعتوں کا سوال ہے تو ان کیلئے بھی یہ صورتحال توجہ کی طلبگار ہے ۔ جو معمولی اختلاف رائے ہوتے ہیں تو ان کو زیادہ فروغ پانے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ نشستوں کی تقسیم کا بنیادی اور انتہائی اہمیت کا جو مسئلہ ہے اس کی جلد یکسوئی کی حجانی چاہئے ۔ کم از کم تمام جماعتوں کے قائدین میں اس مسئلہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ ماحول میں سوشیل میڈیا کے موثر استعمال کے ذریعہ گودی میڈیا کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے ۔ اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو اس تعلق سے چوکسی اختیار کرنے اور عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو تقویت پانے سے روکنے کی ضرورت ہے ۔