ہائے کیسے ظلم وہ ڈھائے
پانی چھڑکے آگ لگائے
ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے جو گروپ بنایا ہے اور جو انڈیا اتحاد تشکیل دیا ہے اس کی وجہ سے برسر اقتدار جماعت اور اتحاد کیلئے آئندہ انتخابات میںمشکل صورتحال درپیش ہوسکتی ہے ۔ جس وقت سے یہ اتحاد تشکیل دیا گیا تھا اسی وقت سے بی جے پی کے خیمے میں پرریشانی اور الجھن دکھائی دے رہی تھی ۔ کچھ گوشوں کی جانب سے اس اتحاد کے دیرپا ہونے پر بھی شبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا ۔ گودی میڈیا کی جانب سے اس اتحاد کو انتشار کا شکار کردینے اور نت نئی الجھنیں پیدا کرنے کی بھی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ پٹنہ ‘ ممبئی اور بنگلورو میں ہوئے اجلاسوں کے بعد بی جے پی کو بھی این ڈی اے اتحاد کی یاد آنے لگی تھی اور اس نے بھی اپنی تائیدی جماعتوںکے اجلاس منعقد کئے تھے ۔ نئی جماعتوں کو اس اتحاد میں شامل کیا گیا تھا ۔ کچھ جماعتوں کو تقسیم کا شکار کرتے ہوئے ان کے کچھ قائدین کو بھی این ڈی اے میں شامل کیا گیا تھا ۔ ان کوششوں کے دورران انڈیا اتحاد کی حصہ دار جماعتوں میںغلط فہمیاں اور الجھنیں پیدا کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں۔ ایک جماعت کو دوسری کے خلاف مشتعل کرنے کے منصوبوں پر بھی عمل کیا گیا تھا ۔ یہ کوششیں اب مزید شدت اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور فطری بات ہے کہ جب کبھی انتخابات کا وقت آتا ہے تو کئی جماعتوںمیںاختلاف رائے ہوتا ہے ۔ نہ صرف جماعتوںمیں بلکہ ایک جماعت میںشامل مختلف قائدین کی رائے بھی مختلف ہوتی ہے ۔ وہ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں۔ یہی ہماری جمہوریت کی انفرادیت ہے کہ ہرکوئی مختلف رائے رکھنے کے باوجود ایک مقصد کیلئے کام کرتا ہے ۔ اب جبکہ ملک کی پانچ ریاستوںمیں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیںانڈیا اتحاد میںشامل جماعتوں میںنشستوں وغیرہ کے تعلق سے کچھ اختلافات ہو رہے ہیں اور یہ فطری بات ہے ۔ اس میں کوئی تشویش یا فکر کی بات ہرگز نہیں ہے ۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ جن ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں وہاں صرف کانگریس ہے جو مقابلہ میں ہے اور کامیابی کے قریب بھی دکھائی دے رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اختلافات کو ہوا دی جا رہی ہے ۔
چاہے عام آدمی پارٹی ہو یا پھر سماجوادی پارٹی ہو ہر جماعت چاہتی ہے کہ اپنے ووٹ شئیر میں اضافہ کیا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ عوامی تائید حاصل کی جائے تاکہ اس کے مطاابق مستقبل کے منصوبوں اور پروگرامس کو قطعیت دی جاسکے ۔ عام آدمی پارٹی ہو یا پھر سماجوادی پارٹی ہو یا پھر کوئی اور جماعت ہو یہ سب کے سب چاہتے ہیںکہ انتخابی مقابلہ میں انہیں بھی حصہ داری دی جائے ۔ تاہم اصل بات یہ ہے کہ بی جے پی کو کس طرح ان ریاستوں میںشکست سے دوچار کیا جائے اس کے مطابق فیصلے ہونے چاہئیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بی جے پی کو ان ریاستوں میں کانگریس ہی شکست سے دوچار کرسکتی ہے ۔ مدھیہ پردیش ہو کہ راجستھان ہو ‘ چھتیس گڑھ ہوکہ میزورم ہو یا پھر تلنگانہ ہو تمام ہی انتخابی سروے کانگریس کی کامیابی کی پیش قیاسی کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ سب سے اصل پہلو یہی ہے کہ بی جے پی کو روکا جائے اور اسے آئندہ پارلیمانی انتخابات سے قبل ہی شکست کا احساس دلایا جائے ۔ ایسے میںاگر کچھ علاقائی جماعتوں کے ساتھ دو تین نشستوں پر انصاف نہ بھی ہو پائے تو انہیں اپنا دل بڑا کرنا چاہئے کیونکہ اصل مقصد اپنے ووٹ کو یقینی بنانے کی بجائے بی جے پی کو شکست دینا ہونا چاہئے ۔ یہی طریقہ کار علاقائی جماعتوں کے استحکام والی ریاستوں میں کانگریس کو اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہوگی ۔
جب آئندہ پارلیمانی انتخابات کا عمل شروع ہوگا تو اترپردیش ‘ دہلی ‘ پنجاب ‘ بہار اور مغربی بنگال میں کانگریس کو پیچھے ہٹتے ہوئے علاقائی جماعتوں کو بی جے پی سے مقابلہ اور اس کو شکست سے دوچار کرنے کا موقع دیناہوگا ۔ فی الحال جو صورتحال ہے اس میں تمام ہی ایسی جماعتوں کوجو انڈیا اتحاد کا حصہ ہیں صبر و تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہوگی ۔ اپنی اپنی سیاسی بالادستی کو یقینی بنانے کی بجائے ایک بڑے مقصد اور نشانہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کرنا ہوگا ۔ تحمل کے ذریعہ انڈیا اتحاد میں اختلافات پیدا کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے اور ایسا کرنا ہر جماعت کی ذمہ داری ہے ۔ بی جے پی کو اس کی بوکھلاہٹ سے نقصان ہوسکتا ہے اس لئے انڈیا اتحاد کی جماعتوں کو بوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔