انیس ملت ابو عمار حضرت عرفان اللہ شاہ نوری مدظلہ اور فن تاریخ گوئی

   

ڈاکٹر حافظ صابر پاشاہ قادری

علم و دانشکی تحصیل کو عبادت اور بندگی سے تعبیر کیا گیا ہے اور درس و تدریس کے شغل میں انہماک علمی اعتکاف کا استعارہ ہے۔ میراث پیمبری کی تقسیم کے ساتھ اگر عرفان باطنی اور روحانی حقائق و معارف ہوتو ظاہر و باطن کا حسین سنگم کہلائے گا اور اس میں تاریخ گوئی کا بلاوقفہ 40 سالہ سفر شامل ہوجائے تو وہ شخصیت مزید منور و تاباں ہوجائے اور اگر اس ذات میں خطابت کی شیرینی کے لطیف عنصر کی آمیزش ہو تو سونے پہ سہاگہ ہی نہیں بلکہ نور اعلیٰ نور کا مصداق ہوگا۔ گوناگوں خصوصیات اور علمی، ادبی و سماجی حلقوں میں انیس ملت ابو عمار حضرت مولانا عرفان اللہ شاہ نوری چشتی قادری نقشبندی سلامت کی شخصیت کچھ ایسی ہی ہے، جنہیں فیاض ازل نے علمیت و عملیت، صلاحیت و صالحیت، خطابت و قیادت، نشر و اشاعت، دعوت و ہدایت کی دس تار سے مرصع و نزین کیا ہے۔ ایک طرف آپ نے دانش گاہ جامعہ نظامیہ سے تحصیل علم کیا تو دوسری طرف خانقاہ و تربیت گاہ سے آداب انسانیت کا ابدی سبق لے کر سینکڑوں افراد کو مسند علم و عرفان سے اصلاح اور مصلح کے جام بھر بھر کے پلایا یہ کیا کم عظمت ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے آپ کا علمی، ادبی، شعری، احسانی، سماجی، اشاعتی، خانقاہی، اصلاحی اور دعوتی سفر تو کل کے ساتھ بلاکسی وقفہ کے جاری و ساری ہے۔ تاریخ گوئی میں آپ فنی شخصیت کے حامل ہے، خصوصاً تاریخ گوئی میں آپ کی عبقریت مسلم ہے، انہیں ملت میں تاریخ کی تخریج کا عجیب و غریب ملکہ قدرت نے ودیعت فرمایا۔ موصوف اعداد کی جمع و تفریق میں بالکل غرق ہوجاتے ہے۔ مشق و تمرین اور ریاضت و مجاہدہ کی وجہ سے ابجدی حروف کے اعداد بالکل ازبر ہیں۔ پوری پوری سطر لکھ لیتے اور لمحوں میں ان کا حساب نیچے رقم فرما دیتے ۔ حساب کے دوران ذہنی پرواز توبیت اونچی ہوتی ہے، لیکن نگاہ قلم اور جسم بالکل ساکت رہتے ہیں اور سانسوں کے ساتھ گھن گھن کی دھیمی آواز نکلتی رہتی ہے جو قریب بیٹھنے والے کو سنائی دیتی ہے۔ تاریخ گوئی کی جتنی صنعتیں اور نوعیتیں ہیں، انیس ملت ہر ایک میں مادیہ تاریخ نکالنے پر قادر ہے۔ جب بھی کسی عظیم شخصیت پر انیس ملت اپنا اشہب قلم دوڑاتے اور متعدد صنعتوں میں مادیہ تاریخ نکالتے رہتے ہیں۔ انیس ملت کو شاعری کا بھی اچھا ذوق ہے،

تخلص سیفی ہے، نعت و منقبت کہتے ہیں نیز تہنیتی و تعزیتی بے شمار قطعہ بھی کہتے ہیں، محمد عبدالقادر آپ کا اسم گرامی ہے۔ پیر و مرشد کا عطا کردہ لقب عرفان اللہ شاہ نوری اصل نام کی جگہ لے لیا ہے۔ تاریخ ولادت 3 شوال المکرم 1369ھ کو ہوئی، والد بزرگوار کا نام حضرت مولوی محمد عبدالحمید قادری نقشبندیؒ انیس ملت کے نانا حضرت پیر سیف علی شاہ نقشبندی مجددی جو عاشق رسول سلسلہ نقشبندیہ میں سے تھے۔ اسی کی بناء پر انیس ملت نے مدرسہ دارالعلوم سیف الاسلام مسجد تیغ جنگ خلوت مبارک حیدرآباد کی داغ بیل ڈالی۔ خون جگر سے بہ نفس نفیس صدارت و ناظم اعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں جو 1385ھ سے علمی دینی خدمات میں مصروف ہیں، جو نامور علماء کرام نے یہاں سے تعلیم حاصل کیا ہے۔ انیس ملت نے نامور علماء کرام و مفتیان کرام سے اکتساب فیض علم و عرفان حاصل کیا جن میں قابل ذکر کنزالعلوم حضرت مولانا مفتی محمد عبدالحمید صدیقی علیہ الرحمہ، حضرت پیر یٰسین شاہ نقشبندیؒ حضرت ابوالبرکات سید خلیل اللہ شاہ نقشبندیؒ حضرت رئیس المفسرین سید طاہر رضوی القادریؒ حضرت مولانا حافظ محمد الطاف حسین فاروقی، حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین قبلہ مدظلہ نبیرہ غوث اعظم حضرت نورالمشائخ مولانا سید نوری شاہ چشتی قادری سے خلافت حاصل ہے نیز دیگر علماء و مشائخ طریقت سے فیضان بھی حاصل کرچکے ہیں۔ صحافتی خدمات میں کئی روزناموں، ہفتہ واری، ماہانہ واری، جرائد و رسائد میںآپ کے مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ ملک اور بیرونی ملک میں مختلف عناوین پر مقالہ جات سمیناروں میں پیش کیا جسے بے حد پسند کیا گیا ہے اور کئی کتب آپ کی زیرسرپرستی میں شائع بھی ہوئی ہیں۔ سرزمین دکن پر نقشبندی کے بانی امام الطریقہ حضرت سید شیخ بہاؤ الدین نقشبندی اور اسی سلسلے کے اہم ستون حضرت مجدد الف ثانی امام ربانی شیخ احمد سرہند فاروقی کے عظیم الشان، سمیناروں جلسوں کا انعقاد تقریباً 46 سال سے کرتے آرہے ہیں۔ انہوں نے ائمہ اربعہ شریعت، ائمہ اربعہ طریقت کے بھی بڑے بڑے سمیناروں و اجتماعات کے ذریعہ نئی نسل کو واقف کروایا۔ انیس ملت کی ادبی کاوشوں، صلاحیتوں کے بارے میں مفکر اسلام زین الفقہاء حضرت مولانا مفتی خلیل احمد قبلہ مدظلہ شیخ الجامعہ نظامیہ عمدہ المحدثین حضرت مولانا محمد خواجہ شریف قبلہ علیہ الرحمہ مصباح اقراء حضرت مولانا حافظ و قاری محمد عبداللہ قریشی الازہری علیہ الرحمہ، مولانا عبداللہ قرموشیؒ، مولانا ڈاکٹر شاہ محمد فصیح الدین نظامی مدظلہ کے علاوہ دیگر علماء کرام مشائخ عظام و دانشوران قوم و ملت نے سراہاتے ہوئے کہا کہ اپنی خداداد قلمی و خطابی قوت سے اس راہ میں جو خدمت انجام دیا ہے۔ وہ ہر آئینہ لائق تحسین اور مستحق تقدیر ہیں، اگر اُردو ادب سے لگاؤ پیدا زبان و بیان میں اچھی مہارت حاصل ہے۔ وعظ و بیان کے ذریعہ عوام الناس کو دعوت خیر دیتے رہے، لوگوں کے دلوں کو سرکار دوعالم حضرت سیدنا محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت سے گرماتے رہے۔ قدرت نے زبان و قلم دونوں کی علمی نعمتوں سے خوب نوازا ہے۔ انیس ملت کو فن تاریخ و تذکرہ سے والہانہ لگاؤ اور دلچسپی ہے چنانچہ ان کی ادبیات میں اسلاف کا تذکرہ زیادہ ملتا ہے۔ اب یہاں بطور نمونہ تاریخ گوئی کی اہم شخصیات پر آپ نے قلمبند کیا ہے۔ وہ درج ذیل ہیں۔ فخر دین فخر زمان پاک باطن‘‘ (2007ء) ہادی مقبول نائب بندہ نواز سید شاہ محمد محمد الحسینی رحمۃ اللہ (1428ھ)
آہ : سید عالی آفتاب طریقت ڈوب گیا
نوید : قال نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من مات یوم الجمعہ فقدمات شہیدا، مولانا سید نور شاہ چشتی قادری علیہ الرحمہ کے نبیرہ محترم پر گلہائے مسرت معدہ مودت خانقاہ نوریہ وہ مرکز فیضان ہے۔ جس طرف نظریں اٹھیں، اللہ کا عرفان ہے۔ نوریہ فیضان سے اس قدر ذیشان ہے۔ شادمانی دیکھ کر جن و بشر حیران ہے۔ مشائخ اہل علم و اہل سلسلہ، سب کے ہیں، مسکن نوری دیکھو ایک جا کیا عجب ہے، سارے مہمانوں میں یہ مہمان ہے، خواجہ اجمیرؒ ہیں، بغداد کے سلطان ہیں، از طفیل مصطفیؐ منصور نوشہ بن گئے‘‘ آج یہ امروز اور منصور یکتا سن گئے لائق و فائق ہیں۔ نوشہ عارف و کامل بھی ہیں، اولیاء اللہ کے اطوار کے حامل بھی ہیں۔ والد نوشہ ہیں خوش جو حضرت مقبول ہیں، گلستان نوریہ کے یہ مہکتے پھول ہیں، چھوٹے تایا ہیں، سراجؔ اور چاچا خوش اسرارؔ ہیں، نوری مظہر اور حسین قطب بھی سرشار ہیں۔ خوش رہیں دلہا دلہن کل خاندان نوریہ، التجا ہے، سیفیؔ نوری کی یہی اب ائے خدا انیس ملت سیفیؔ کو خانقاہ نوریہ سے بڑی اٹوٹ وابستگی اور یہاں نورالمشائخؒ سے بڑے گہرے علمی و روحانی رشتہ تھا۔ ٭