اور تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی ایسی مدد فرمائے جو زبردست ہے

   

اور تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی ایسی مدد فرمائے جو زبردست ہے ۔وہی ہے جس نے اتارا اطمینان کو اہل ایمان کے دلوں میںتاکہ وہ اور بڑھ جائیں (قوتِ) ایمان میں اپنے (پہلے ) ایمان کے ساتھ ۰۰۰(سورۃ الفتح ۳۔۴) 
ان انعامات خصوصی کے آخر میں فرمایا وَيَنْصُرَكَ اللّٰهُ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کی ایسی نصرت فرمائے گا کہ حضور (ﷺ) ہمیشہ غالب رہیں گے اور کسی قسم کی کمزوری روپذیر نہ ہوگی۔یہاں ایک نکتہ غور طلب ہے ۔ ان آیات میں مذکور تمام افعال کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے لیکن لِيَغْفِرَ اور وَيَنْصُرَ کے بعد اللہ عزاسمہ کو ظاہرا ًذکر کیا۔ اس کی حکمت یہ بیان کئی گئی ہے کہ مغفرت کا تعلق عالم آخرت کے ساتھ ہے اور نصرت و غلبہ کا تعلق دنیا کے ساتھ ۔ گویا فرمایا اے محبوب ! تیری دنیا اور تیری آخرت کے تمام امور ہمارے سپرد ہیں۔ نہ اس دنیا میں آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت ہے اور نہ عقبیٰ کے بارے میں کسی اندیشہ کی ضرورت ہے یعنی اللہ تعالیٰ آپ کے دنیوی اور اخروی تمام اُمور کا ذمہ دار ہے۔(روح المعانی) صلح حدیبیہ کے بعد سرور عالم (ﷺ) اپنے جاں نثاروں کی معیت میں مدینہ طیبہ روانہ ہوئے تو راستہ میں اس سورت کی پہلی آیتیں نازل ہوئی ۔ حضور (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے ساری دنیا سے محبوب تر اور عزیز تر ہے۔ حضور (ﷺ) نے دوسری آیت پڑھ کر سنائی۔ جب زبان پاک سے لِيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَاَخَّرَکے کلمات طیبات ادا ہوئے، تو صحابہ خوشی سے بےقابو ہوگئے، مبارکبادیاں پیش کرنے لگے۔