اس مقام پر علامہ ثناء اللہ پانی پتی نے ایک بحث لکھی ہے جس کا خلاصہ ہدیہ قارئین ہے۔ وہ لکھتے ہیں:بعض احادیث میں مذکور ہے کہ شہداء اور مومنین کی ارواح جنتی سبز رنگ کے پرندوں میں ہوں گی اور بعض احادیث میں آیا ہے کہ مومن کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے مثلاً بخاری شریف میں موجود ہے کہ شب اسریٰ حضور (ﷺ) نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا ۔ احادیث میں اس تعارض کا کیا جواب ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ ان متعارض احادیث کی تطبیق اس طرح ہے کہ مومنین کی ارواح کا مقر (ٹھہرنے کی جگہ) تو عِلِّیّین میں ہے یا ساتوں آسمان میں اور کفار کی روحوں کا ٹھکانا سِجِّيْن میں ہے ۔ اس کے باوجود ہر روح کا اپنے جسم کے ساتھ اپنی قبر میں ایک تعلق ہے جس کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اسی تعلق کی وجہ سے میت اپنے زائر کے سلام کو سنتی ہے اور منکر ونکیر کے سوالوں کا جواب دیتی ہے۔ اسی طرح دوسرے احوال جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں ، ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ موصوف اس کی ایک مثال دیتے ہیں کہ جبریل کا اصل مقام تو آسمانوں میں ہے لیکن وہاں ہوتے ہوئے وہ بارگاہ رسالت کے اس قدر نزدیک ہوتا کہ اپنے ہاتھ حضور (ﷺ) کی رانوں پر رکھ دیتا۔ عِلِّيُّوْن کے اعراب کے بارے میں فراء کا قول بھی سن لیجیے: یہ اسم ہے جو جمع کے معنی پر دلالت کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ اس کے اپنے لفظ سے اس کا کوئی واحدنہیں جیسے عشرون ، ثلاثون، حالت رفعی میں عِلِّيُّوْن اور نصبی وجری میں عِلِّیّین ہوگا۔(جاری ہے )