اور کچھ دیں کہ نہ دیں عشق میں وہ مجھ کو شجیعؔ

   

کچھ غمِ گردش ایام تو دے سکتے ہیں
حکومت پر عوام کی نظریں
کوروناوائرس لاک ڈاؤن نے ہندوستانی معیشت کو گہری کھائی میں ڈھکیل دیا ہے۔ آر بی آئی نے یہ اندیشہ ظاہر کرکے ہندوستانی عوام کو تشویش میں مبتلاء کردیا ہے کہ اگر کورونا کا قہر یوں ہی جاری رہا اور لاک ڈاؤن کا عذاب برقرار رہے تو پھر ہندوستانی معیشت کا مستقبل غیریقینی ہوجائے گا۔ آر بی آئی نے اپنی مالیاتی پالیسی رپورٹ میں کوروناوائرس سے متاثرہ دنیا کے متمول ممالک کی معاشی صورتحال کے تناظر میں یہ اشارہ دیا ہیکہ سال 2020ء میں پیداوار اور کھپت کی شرح بری طرح متاثر رہے گی۔ ہندوستان میں حکومت کی کارکردگی اور معاشی محاذ پر ٹھوس اقدامات کے فقدان نے کئی مسائل کو دعوت دیدی ہے۔ مرکز کی بی جے پی حکومت کے پاس شہریوں کو فضول باتوں میں الجھا کر رکھنے کے سواء کوئی تدبیر یا حکمت نہیں ہے۔ کوروناوائرس کے اثرات کو کم کرنے اور لاک ڈاؤن سے ہونے والی پریشانیوں اور معاشی ابتری کو روکنے کی تدابیر کرنے کے بجائے عوام کو تالی تھالی اور دیپ جلا کر خوش رہنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ یہ حکومت ایسا معلوم ہوتا ہیکہ اپنی خرابیوں پر تبلیغی جماعت کے واقعہ کا پردہ ڈال کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا خوب ہنر رکھتی ہے۔ مودی حکومت کی ہر خرابی پر واہ واہ کرنے والا الیکٹرانک میڈیا بھی عوام کو معاشی سنگینیوں سے بے خبر رکھنے کیلئے تبلیغی جماعت کے ارکان کے کوروناوائرس پھیلانے کا ہی ماتم کررہا ہے۔ نظام الدین مرکز پر کوستے اور لتاڑتے ہوئے لاک ڈاؤن کی تمام خرابیوں اور تباہیوں کو نظرانداز کردینا بہت بڑی غلطی ہے۔ حکومت کی طرف سے خاص کر وزیراعظم نریندر مودی نے اب تک تین مرتبہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے صرف سطحی باتیں کی ہیں۔ بنیادی طور پر معاشی پیاکیج کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں ہندوستان کا ہر شہری اپنے مشترکہ دشمن سے لڑ رہا ہے۔ معاشی ابتری کی دکھائی دینے والی خرابی کو چھپا کر مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کے خلاف من گھڑت کہانیوں کے ذریعہ عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کوروناوائرس کی وباء پھوٹ پڑنے کے بعد 19 مارچ کو قوم سے کئے گئے اپنے پہلے خطاب میں یہ کہا تھا کہ ان کی حکومت کوروناوائرس وباء کے باعث معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کو دور کرنے کیلئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دے گی اس کے تقریباً ایک ہفتہ بعد حکومت نے معاشی راحت پیاکیج کا اعلان کیا جو مثبت شروعات ثابت نہیں ہوسکا۔ اس کے بعد وزیراعظم نے قوم سے جب بھی خطاب کیا اس میں صرف دلاسہ اور بھروسہ ہی دیا ہے۔ اب لاک ڈاؤن کے 21 دن پورے ہوتے جارہے ہیں اور یہ لاک ڈاؤن مزید 15 دن تک جاری رکھنے پر غور ہورہا ہے لیکن معیشت کی تباہی کو روکنے اور اس تباہی سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ ملک کی معیشت پہلے ہی آئی سی یو میں چلی گئی تھی اور اس زوال پذیر معیشت کو بڑی مشکل سے انتہائی نگہداشت والے کمرے سے باہر نکالنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی اب تو کوروناوائرس کی وجہ سے یہ معیشت آئی سی یو میں ہی دم توڑ رہی ہے۔ شاید ہی اس کو باہر نکال کر صحتمند بنانے کی کوشش کی جائے۔ حکومت کی کارکردگی اور ادارتی گروپ کی سرگرمیوں سے ایسا تو نہیں معلوم ہوتا کہ یہ حکومت کچھ کرپائے گی۔ ملک کے غریب عوام کے دکھ درد کا ہمیشہ بڑا تذکرہ کرنے والی حکومت غریب عوام کو لاک ڈاؤن کی مار سے بچانے کی بھی اہل نظر نہیں آتی۔ اب تو ساری دنیا میں کئی اشیاء کی قیمتیں گر رہی ہیں۔ امریکی ڈالر کے مقابل میں روپئے کی قدر گرتے جارہی ہے۔ عالمی سطح سے تیل کی قیمت تاریخ کے سب سے کم ترین سطح پر آ گئی ہے لیکن حکومت اس ارزاں تیل کے ثمرات بھی عوام کو منتقل کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔ ساری دنیا میں کئی کمپنیاں بند ہیں تو ہندوستان میں اس سے زیادہ برا حال ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد کی صورتحال تو اس سے زیادہ بھیانک ہوسکتی ہے۔ لوگ جب سڑکوں پر آئیں گے اور جیب میں پیسہ نہ ہوگا تو اندازہ کیجئے کہ عوام کا کیا حال ہوگا۔ چھوٹے بیوپاریوں، کرایہ کے دوکانات میں کاروبار کرنے والوں اور دیگر اسمال اسکیل انڈسٹریز سے وابستہ افراد کا کون پرسان حال ہوگا۔ یہ تمام باتیں حکومت کیلئے بے معنی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ حکومت نے اب تک ان امور پر توجہ نہیں دی ہے اور نہ ہی کسی بڑے معاشی راحت پیاکیج کا اعلان کیا ہے۔ اب جبکہ وزیراعظم دوبارہ ٹی وی پر نمودار ہوکر عوام سے مخاطب ہوں گے تو وہ لاک ڈاؤن کے بارے میں اور اس حکومت کی تیاریوں کے بارے میں عوام کو کیا بتائیں گے یہ تجسس برقرار ہے۔ آیا وہ ہمیشہ کی طرح تالی تھالی بجانے اور دیپ جلانے جیسی مصروفیات کا تحفہ دے کر چلے جائیںگے یا کچھ معاشی امور پر اپنی حکومت کی سنجیدہ کوششوں کا تذکرہ کریں گے یہ دیکھنے کیلئے عوام بے تاب ہیں۔
تلنگانہ میں کورونا ہاٹ اسپاٹس
تلنگانہ میں کوروناوائرس کی وباء سے نمٹنے کیلئے سخت اقدامات کئے جارہے ہیں۔ عوام کو ہلاکت سے بچانے کیلئے حکومت کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ ساری ریاست میں 101 مقامات کو کورونا کے ہاٹ اسپاٹ قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ علاقے وائرس کی زد میں ہیں تو یہاں رہنے والے مکینوں پر باہر نکلنے کی پابندی ہوگی۔ ہر طرح کی نقل وحرکت کو بند کرکے ہی وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔ ریاست میں ہر روز نئے کیس آرہے ہیں۔ مریضوں کی تعداد 430 ہوچکی ہے جو ملک میں چوتھے نمبر پر ہے۔ ریاست تلنگانہ میں 12 اموات درج کی گئیں اور 45 مریض صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔ اب ہاٹ اسپاٹ قرار دیئے گئے علاقوں میں عوام کی ضروریات، ان کے مسائل کی یکسوئی کے بارے میں تو فکر لاحق ہوگئی ہے اس پر حکام کو ہی غور کرنا ہے۔ اترپردیش کی حکومت نے 15 اضلاع کو مہربند کردیا ہے۔ ان علاقوں کو ہاٹ اسپاٹ قرار دیا گیا۔ تلنگانہ کے جن علاقوں کو ہاٹ اسپاٹ بنادیا گیا ہے وہاں عوام کو روزمرہ دودھ، ترکاریوں کی دستیابی کا مسئلہ درپیش ہوگا۔ میڈیکل شاپس کی کشادگی کا بھی معاملہ اصل سوال ہے۔ پینے کے پانی کی سربراہی میں رکاوٹ ہوگی۔ سخت اقدامات کے ساتھ حکام کو ان علاقوں کے عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے انتظامات بھی کرنے ہوں گے۔ اگر کسی گھر میں ایمرجنسی پیدا ہوجائے تو ان کیلئے ہیلپ لائن کے ذریعہ مدد حاصل ہوسکتی ہے یا نہیں یہ غور کرنا ضروری ہے۔ بعض اوقات یہ شکایت ہوتی ہیکہ عوام کی مدد کیلئے جو ہیلپ لائن دیئے جاتے ہیں ان پر کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ اگر پورے علاقہ کی ناکہ بندی کردی جائے تو پھر یہاں رہنے والے تمام شہریوں کو کئی مسائل کا شکار ہونا پڑے گا۔ حکام کو چاہئے کہ علاقوں کی ناکہ بندی کے ساتھ یہاں پر ضروری اشیاء کی سربراہی کے انتظامات کو بھی یقینی بنائیں۔