اُترپردیش ، گودی میڈیا اور سپریم کورٹ

   

حیدر عباس
وزیراعظم نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت کا مسلسل آٹھواں سال ہے اور بالآخر ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے اس حکومت میں چلائے جارہے ’’گودی میڈیا‘‘ کے تعلق سے سخت ریمارکس کئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کا میڈیا گھرانوں نیوز ایجنسیوں اور آؤٹ لیٹس کے ایک گوشہ کے بارے میں یہ بھی تاثر ہے کہ یہ ہمیشہ ہندو ۔ مسلم خطوط پر سوچتے ہیں اور اپنے پروگرامس اور خبروں کے ذریعہ صرف ہندو۔ مسلم کرتے رہتے ہیں۔
چیف جسٹس این وی رمنا کی زیرقیادت سپریم کورٹ کی ایک بینچ نے کورونا وائرس کیلئے بعض میڈیا گھرانوں کی جانب سے تبلیغی جماعت کو ذمہ دار قرار دیئے جانے اور اسی بہانے معاشرہ کو تقسیم کرنے کی کوششوں کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے مذکورہ خیالات کا اظہار کیا۔ موقر انگریزی روزنامہ ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ کے مطابق میڈیا کے ایک گوشہ نے ان خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ دیا ہے۔ چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوشیل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کیلئے جوابدہی کا کوئی میکانزم نہیں اور اس معاملے میں جوابدہی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ ادارہ ججس کی جانب سے شکایت کا بھی جواب نہیں دیتے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا: ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں میڈیا کا ایک گوشہ ہر چیز کو فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے دکھاتا ہے۔ نتیجہ میں ملک کی بدنامی ہورہی ہے‘‘۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے یہ فکر انگیز تبصرہ تبلیغی جماعت کو جان بوجھ کر کورونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دینے اور اسے بدنام کرتے ہوئے غیرمسلم میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے والے میڈیا گھرانوں کے خلاف دائر کردہ عرضیوں کی سماعت کے دوران کیا۔ اِن میڈیا گھرانوں نے گزشتہ سال دہلی میں تبلیغی جماعت کے نظام الدین مرکز کے اجتماع کے تعلق سے خبریں پیش کرتے ہوئے انتہائی تعصب و جانبداری کا مظاہرہ کیا اور تبلیغی جماعت کے خلاف زہر افشانی کی۔ ان کا لب و لہجہ بالکل فرقہ وارانہ نوعیت کا تھا۔ ان درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس این وی رمنا کی زیرصدارت وہ بینچ کررہی ہے جس میں جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس اے ایس بوپنا شامل ہیں۔ ان درخواستوں میں تبلیغی جماعت کے تعلق سے جھوٹی خبر نشر کرنے والے نیوز چیانلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے سوشیل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمس کی جانب سے جس انداز میں سرکاری اداروں کا امیج خراب کیا جارہا ہے، اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ویب پورٹلس پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہا۔ وہ جو چاہتے ہیں، شائع اور نشر کرسکتے ہیں۔ اگر آپ یوٹیوب (YouTube) کو دیکھیں، صرف ایک منٹ میں بہت کم دِکھایا جاتا ہے۔ کس قدر فرضی خبریں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میڈیا پر کنٹرول نہیں ہے۔ حال یہ ہوگیا ہے کہ اب ہر کوئی ٹی وی چیانل شروع کرسکتا ہے اور ان چیانلوں کیلئے کوئی جوابدہی کا میکانزم نہیں اور نہ ہی یہ کئے گئے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔ یہ حالت ہمارے اداروں کی ہوگئی ہے۔ افراد کو بھول جایئے، میڈیا کا یہ گوشہ صرف بااثر اور طاقتور لوگوں کو اہمیت دیتا ہے۔ اداروں، عام آدمی اور ججس کو اہمیت نہیں دیتا۔ یہی ہے جو ہم نے اب تک دیکھا ہے۔ چیف جسٹس کا یہ تبصرہ یا حکومت کی سرزنش ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جبکہ ہزاروں نہیں تو کم از کم بیسیوں کی تعداد میں 2014ء سے اب تک مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد کے واقعات پیش آچکے ہیں اور ان واقعات میں یقینا میڈیا کے ایک گوشہ نے انتہائی ناپاک کردار ادا کیا ہے جس سے معاشرہ میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلی ہے، مسلمانوں کی سیفٹی اور سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ میڈیا نے جس طرح تبلیغی جماعت کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت پھیلائی اور یہ ایک ایسے وقت پھیلائی گئی جبکہ کووڈ۔ 19 وباء کی ابتداء ہوئی تھی۔
میڈیا نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کو وائرس پھیلانے والے یا سوپر اسپیریڈر قرار دیا تھا لیکن مختلف عدالتوں نے تبلیغی جماعت کو اُن تمام الزامات سے بری قرار دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران میڈیا نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا حالانکہ دوسری لہر کے دوران مرنے والوں کی تعداد پہلی لہر میں مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ تھی۔ اس کے باوجود صرف یکطرفہ نقطہ نظر رکھنے والے میڈیا گھرانے اب بھی ایسے موضوع کی تلاش میں رہتے ہیں یا پھر ایسی خبروں کی جستجو میں رہتے ہیں، جس سے مسلمانوں کے خلاف لہر پیدا کی جائے اور ان بہانوں سے مسلمانوں کو بدنام کیا جائے۔ سماجی ہم آہنگی متاثر کی جائے، ساتھ ہی فرقہ وارانہ فسادات کا ماحول تیار کیا جائے۔ یہ میڈیا گھرانے ایسے پروگرامس پیش کرتے ہیں جن کا مقصد معاشرہ کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا ہوتا ہے اور یہ تقسیم بی جے پی کیلئے بہت موزوں ہوتی ہے۔ بی جے پی نے اپنے ووٹوں کے فیصد میں اضافہ کیلئے ہمیشہ فرقہ وارانہ فارمولہ اپنایا ہے۔ دوسری طرف ساری ریاست اترپردیش میں چیف منسٹر یوپی اور وزیراعظم کے بڑے بڑے پوسٹرس اور بیانرس لگائے گئے اور مزید لگائے جارہے ہیں جن پر ان لوگوں کی جھوٹی تعریف کی گئی ہے تاکہ عوام کو متاثر کیا جائے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کروڑہا روپئے فضول کاموں میں برباد کئے جارہے ہیں، لیکن کووڈ۔19 کی دوسری لہر کے دوران جو لوگ اپنے عزیزوں سے محروم ہوگئے انہیں کوئی امداد نہیں دی گئی۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ آکسیجن کی دستیابی سے بھی محروم رہے۔ آج ہر خبر میں ’’ہندو ۔ مسلم‘‘ کیا جارہا ہے اور ماحول کو مزید فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، اس لئے کسان احتجاج کا مقبول ترین چہرہ راکیش سنگھ ٹکیٹ نے جو کسانوں کے مسئلہ پر مودی اور بی جے پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، اس خدشے کا اظہار کیا کہ یوپی اسمبلی انتخابات سے قبل ایک ہندو لیڈر قتل ہوگا اور یہ آر ایس ایس کرے گی۔ راکیش ٹکیٹ کا یہ بیان 13 اگسٹ کو ’’ری پبلک ورلڈ‘‘ نے شائع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سماج کو تقسیم کرنا آر ایس ایس کی سازش ہے اور وہ کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ راکیش ٹکیٹ جیسے کسان لیڈر کے اس بیان کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کیونکہ وہ ایک بہت بڑے کسان لیڈر ہیں اور ان کے بیان کو یوں ہی آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ راکیش ٹکیٹ چونکہ ایک کسان لیڈر ہے اور ملک کی سیاست کو اچھی طرح جانتے ہیں، حکومت کی پالیسیوں سے اچھی طرح واقف ہیں، اس لئے ان کا بیان کافی اہمیت رکھتا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ آج ہندوستان کی سیاسی قیادت تخریبی ایجنڈے پر کام کرنا چاہتی ہے اور اس کا حامی میڈیا ہر لحاظ سے حکومت کی مدد کررہا ہے۔ ایک طرف میڈیا ، اب سرکاری مشنری کا آلہ کار بن گیاہے۔