اُمہات المؤمنین (ازواج مطہرات) اُم المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا

   

…گزشتہ سے پیوستہ …
شادی کے تیسرے دن سیدالمرسلین سیدناابوطالب اور دوسرے اعمام اور نوجوانان بنی ہاشم کے حلقہ میں شہزادیٔ عرب اور ام المومنین خدیجہ الکبریٰ کے قصر نور کی جانب روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو آپ کے پیارے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب نے یہ قصیدہ پیش کیا:
اے قریش و آل غالب ،تمہیں عنایات کی بشارت ہو۔
اے میری قوم وقبیلہ والو!ثناء جمیل اور بے حساب عنایات پر فخر کرو۔
لوگو!تمہارا فضل و شرف اور بلندیٔ مراتب زمانہ میں معروف ہے۔
تم سبب افتخار بن گئے احمد کے دم سے ،جو زینت ہیں ہر طیب و طاہر کے لئے۔
ان کا نور چودہویں رات کے چاند کی مانند ہے جو ہمیشہ روشنی پھیلاتا رہتا ہے۔
اے خدیجہ!آپ کامیاب ہوئیں،بڑی جلیل و عظیم عطاؤں کے ساتھ۔
جوانمرد کے ذریعہ جو بڑے بڑے منصبوں پر فائز ہے۔
خدا نے ان کے ذریعہ تمہاری جماعت کو اجتماع کی توفیق عطا کی ،پس وہی تمام مطالب کا پروردگار ہے۔
احمد سردار خلائق ہیں جو ہر پیادہ و سوار سے بہتر و افضل ہیں۔
ان پر لگا تار درود و سلام ہوتا رہے ،جب تک سواریوں پر سوار چلتے رہتے ہیں۔
اس قصیدہ مبارکہ کے دوران مکہ کے درو دیوار سے تحسین و آفرین کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔سیدہ خدیجہ الکبریٰ نے سن کر فرمایا ’’جان لوکہ محمد ؐکی شان بہت بلند و برتر ہے اور ان کا فضل ہر کسی کے لئے عام ہے،ان کی سخاوت بڑی عظیم ہے‘‘۔ تاریخ انسانیت کی یہ منفرد ،پہلی اور آخری شادی ہے جس سے پہلے کسی نے ایسی شادی دیکھی نہ اس کے بعد ،جس میں لوازمات دنیا کے ساتھ ساتھ الٰہی توجہات نے چار چاند لگا دیئے تھے،نہ دنیاوی مال و حشمت اور تمکنت کی کمی تھی نہ الٰہی برکات و عنایات کی۔
جہیز: دنیا کی کوئی عورت اتنا جہیز لے کر اپنے شوہر کے گھر نہ آئی جتنا سیدہ خدیجہ ؓلے کر خانۂ نبوت میں آئیں۔شہزادیٔ عرب کے جہیز کا یہ سارا سامان نہ آپ کے مرحوم والد کی چھوڑی ہوئی دولت تھی نہ بھائیوں کی محبت کا نتیجہ،بلکہ میمونہ کاملہ،فاضلہ و عاقلہ شہزادی نے تجارت کر کے اور اس تجارت کو بین الاقوامی فروغ دے کر خود اپنی عقلِ خداداد، بہترین صلاحیت واستعداد اور حسن انتظام سے اتنا عظیم سرمایہ اکٹھا کیا تھاکہ عرب دنیا میں کوئی رئیس و امیر بھی اس دولت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ شہزادیٔ عرب کو جب قدرت نے شہزادیٔ اسلام اور کائنا ت کی پہلی ام المومنین بنے کا شرف عطا فرمایاتو آپ نے توقعات کے مطابق اس خطاب و شرف کے ساتھ انصاف فرمایا،اس کے بھرم اور آبرو میں اپنی نیک سیرتی ،اعلیٰ ظرفی اور بلند اخلاقی کی معراج سے چار چاند لگا دیئے۔انہیں اب نہ دولت سے سروکار رہا نہ تجارت کی فکر رہی کیونکہ کائنات کی سب سے عظیم دولت نبی آخرالزماں، سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں مل گئی تھی۔ آپ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوپا کر شہزادیٖٔ عرب سے شہزادیٔ اسلام اور مادر اہل ایمان (اُم المؤمنین) ہوگئیں۔
ازدواجی زندگی: سیدہ خدیجہ طاہرہ کے کامیاب ادوار حیات میں ایک نئے تابناک اور کامرانیوں سے بھرپور دور کا آغاز ہوا۔آپ جانتی تھیں کہ آپ کے شوہر صرف عظیم انسان ہی نہیں بلکہ خاتم الانبیاء اور مرسل اعظم ہیں۔ورقہ بن نوفل کی مشاورت اور پیشین گوئیوں کی تصدیق کے بعد آپ نے انہیں شام سے خریدا گیا قیمتی اور بیش بہا خلعت عنایت فرمایاجسے لینے سے ورقہ نے انکار کر دیا اور درخواست کی کہ میری دلی خواہش ہے کہ آپ کے سرتاج محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری شفاعت کا وعدہ کر لیں۔سیدہ نے وعدہ فرمایا کہ ایسا ہی ہوگا۔ پچیس برس پہ محیط رفاقت حیات میں اپنی بہترین سیرت و اخلاق اور عادات کی وجہ سے خانۂ نبوت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام و سکون کا گہوارہ بنا دیابلکہ وہ مثالی کردار پیش کیا کہ جس پر ام المومنین کے ا لٰہی لقب کی فضیلتیں ہمیشہ ناز کریں گی۔
عباس محمود العقاد کے الفاظ ہیں، ’’سرور کائنات ؐنے یتیمی کی حالت میں پرورش پائی۔والد کی وفات آپؐ کی پیدائش سے پہلے ہو چکی تھی،والدہ کا سایہ بھی زیادہ دیر تک سر پہ نہ رہا اور وہ بچپن ہی میں داغ مفارقت دے گئیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص منشاء اور تصرف کے ماتحت ،خدیجہ جیسی پاکباز اور غمگسار خاتون کو آپؐ کے لئے چنا۔ شادی کے بعد حضرت خدیجہؓ نے جس دلسوزی سے آپؐ کی دلجوئی کی اس نے تمام مصائب اور صدمات کا مداوا کر دیاجو یتیمی کی حالت میں آپؐ کو اٹھانے پڑے تھے۔ نبوت کے ساتھ ہی مصائب کا پہاڑ رسول مقبول پر ٹوٹ پڑا۔کسی قسم کی ایذا نہ تھی جو بد نہاد مشرکین نے حضور کو نہ پہنچائی ہو اور مخالفت کا کوئی دقیقہ نہ تھا جو قریش نے فروگذاشت کیا ہو۔اس حالت میں جب کہ مکہ کا چپہ چپہ حضور کا دشمن ہو رہا تھا اور آپؐ پر بدترین قسم کے مظالم ڈھائے جارہے تھے۔ ا گر کسی نے حضورؐ کی کامل رفاقت کا ثبوت دیاتو وہ حضرت خدیجہؓ تھیں۔انہوں نے اپنا تن من دھن،سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کے لئے قربان کر دیااور اس دلسوزی اور جانفشانی سے آپؐ کی خدمت کی کہ اس کے سامنے حضور کو کفار مکہ کے مظالم کا احساس تک جاتا رہا اور آپؐ ، بہ اطمینانِ کامل تبلیغ و اشاعت اسلام میں مصروف رہے‘‘۔ …جاری ہے