اِسلاموفوبیا کا جواب بہترین اخلاق یا اِسلامک ٹی وی چیانل

   

محمد ریاض احمد

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، ترکی کے صدر رجب طیب اردغان اور ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتر محمد نے عالمی سطح پر اسلاموفوبیا اور دین اسلام و مسلمانوں سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ اس سلسلہ میں تینوں رہنماؤں نے تینوں ملکوں کا ایک مشترکہ وینچر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت عالمی سطح پر ایک انگریزی اسلامک ٹی وی چیانل شروع کیا جائے گا۔ اس ٹی وی چیانل میں ایسے پروگرامس پیش کئے جائیں گے جس سے دنیا بالخصوص مغربی ممالک میں اسلام کے بارے میں جو غلط تصورات پائے جاتے ہیں اسے دور کرنے میں مدد ملے گی۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی رہنماؤں اور میڈیا کے کردار کا تفصیلی جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے بارے میں ساری دنیا میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور مسلمانوں کو تنگ ذہن، متعصب، جاہل یہاں تک کہ انسانیت دشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہ عام لوگوں کا قصور نہیں بلکہ عالمی سطح پر دین اسلام کو بدنام کرنے کی خاطر رچی گئی سازش کا ایک معمولی حصہ ہے کیونکہ دشمنان اسلام اچھی طرح جانتے ہیں کہ دین اسلام میں وہ سچائی اور پاکیزگی ہے جس کے ذریعہ غیر مسلم اسلام کی جانب بڑی تیزی سے راغب ہوتے ہیں۔ اسلام نے پاکیزگی کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ مثال کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا ہے کہ پاکی آدھا ایمان ہے۔ مسلمان طہارت و پاکیزگی کا غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں اور شادی شدہ مسلمان مباشرت کے بعد غسل کرنا نہیں بھولتے یہاں تک کہ وہ اس حالت میں دو قدم آگے بھی نہیں بڑھاتے۔ اور اس سلسلہ میں سائنسی لحاظ سے ساری دنیا جانتی ہے کہ مباشرت کے بعد مرد و خواتین کے اجسام سے ایک ایسی رطوبت خارج ہوتی ہے صاف کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، اسی وجہ سے فوری غسل کرلیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ غیر مسلموں میں دیکھیں گے تو مابعد مباشرت غسل کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس کے علاوہ دین اسلام میں زنا کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ زنا دراصل ناجائز جنسی تعلقات ہیں اس سے معاشرہ میں نہ صرف معاشرتی برائیاں بلکہ انسانوں میں مختلف جسمانی بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں، مثال کے طور پر ایچ آئی وی ؍ ایڈز اس کی بدترین مثالیں ہیں۔ اگر آپ عالمی سطح پر ایڈز سے متاثرہ ممالک اور لوگوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ان ممالک اور مریضوں میں مسلم بہت کم ہیں۔ اسلام میں ناجائز تعلقات کے خلاف سخت وعیدیں آئی ہیں۔ اس کی وجہ ایک صالح اور صحتمند معاشرہ کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ نکاح کو دین اسلام میں ایک مقدس معاہدے سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے تحت دو زندگیاں یعنی میاں بیوی پاکیزہ طریقوں سے کئی زندگیوں کو دنیا میں لانے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر غیر مسلموں میں دیکھا جائے مغرب کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں بنا شادی کے لیو ان ریلیشن شپ (Live in Relationship)کا رواج عام ہے اور بنا شادی کے ہی لاکھوں کی تعداد میں بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔ جبکہ دین اسلام میں میاں، بیوی کی وفاداری مثالی ہوتی ہے اور ان کی شادیاں ڈولی سے ڈولے تک یعنی شادی سے موت تک برقرار رہتی ہیں۔ مغرب اگرچہ بہت بڑی باتیں کرتا ہے لیکن آج بھی وہاں نسل پرستی پوری شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ امریکہ جیسا ملک جو خود کو دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں میں ایک قرار دیتا ہے وہاں بھی نسل پرستی کی بیماری پائی جاتی ہے، لیکن دین اسلام میں نسل پرستی نہیں پائی جاتی۔ اس سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ جسے ’’خطبۂ حجۃ الوداع‘‘ کہا جاتا ہے ساری دنیا کے لئے انسانیت کا ایک بہترین چارٹر ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر، دولت مند کو غریب پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے بلکہ تقویٰ ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے پر ممتاز حیثیت عطا کرتا ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ سارے مغرب میں افریقی ممالک سے سیاہ فام باشندوں کو پکڑ کر لاتے ہوئے اپنا غلام بنایا جاتا تھا، خواتین کو ’’داد ِعیش کے کھلونے‘‘ کے طور پر استعمال کرکے پھینک دیا جاتا تھا یہاں تک کہ مہذب سماج کا دعویٰ کرنے والا یوروپ نے عورتوں کو ان کے تمام حقوق سے محروم کررکھا تھا اس وقت ’’دین اسلام‘‘ نے غلامی کے خلاف آواز اٹھائی، غلاموں کو آزاد کرنے کو ثواب دارین کا ذریعہ قرار دیا اور غلاموں کے ساتھ مساویانہ سلوک کرنے، انہیں اپنی طرح کھانا، اپنی طرح کے کپڑے اور اپنی طرح رہن سہن کی سہولتیں فراہم کرنے کا حکم دیا۔ اسلام نے خواتین کو دنیا میں سب سے پہلے عزت و شرف کی معراج پر پہنچایا اور ببانگ دہل یہ پیام دیا کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ اسلام نے ہی بحیثیت بیوی عورت کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں کو بہترین مرد قرار دیا جو اپنے بیویوں سے حسن سلوک کرتے ہیں۔ اسلام نے ترکہ یا جائیداد میں بہنوں کا حق مقرر کرکے انہیں بیٹوں کی طرح مساویانہ حق فراہم کیا۔ دین اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا جس پر ایک ایسا بھی مرحلہ آیا جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یہ سوچنے لگے تھے کہ آیا جائیداد میں بھی پڑوسیوں کا حق مقرر نہ کردیا جائے۔ دین اسلام میں پڑوسیوں بالخصوص غریب اور ضرورت مند پڑوسیوں کا خاص خیال رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے اور کوئی ایسا کام نہ کرنے کے لئے کہا گیا ہے جس سے پڑوسیوں کو تکلیف ہوتی ہو۔ دین اسلام نے راستے میں پڑے پتھر، کانٹوں اور رکاوٹوں کو ہٹانے کو نیکی قرار دیا ہے۔ ایک قتل کو ساری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا ہے۔ اقلیتوں، بے بسوں، مجبوروں، کمزوروں، یتیموں و یسیروں کے حقوق کے تحفظ کی ہدایت دی ہے اور خدمت خلق کو سب سے بڑی عبادت کا نام دیا ہے اور جب مزدوروں و محنت کشوں کی بات آتی ہے تو اسلام یہ کہتا ہے کہ مزدوروں کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی ان کی اُجرت ادا کردی جائے۔ دین اسلام نے صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جانوروں، پرندوں، کیڑے مکوڑوں اور حشرات الارض پر ہی رحم کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ شجر و حجر یعنی درختوں اور پہاڑوں پر بھی رحم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ مسلمانوں کو باضابطہ یہ حکم دیا گیا کہ جنگ کی صورت میں وہ دشمنوں کے کھیتوں، کھلیانوں، درختوں اور سرسبز و شاداب باغوں کو تباہ و برباد نہ کریں، بوڑھوں و خواتین اور بچوں کے قتل سے گریز کریں ، ان کے ساتھ رحم کا معاملہ کریں اور جو قیدی بنالئے گئے ہیں اگر وہ تعلیم یافتہ ہوں، ہنرمند ہوں تو ان کی خدمات مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے استعمال کریں اور قیدیوں کا بھی بطور خاص خیال رکھیں، ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا نہ رکھاجائے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہ بھی ہدایت دی ہے کہ ساری دنیا ایک کنبہ ہے اور تمام انسان ایک ہی باپ حضرت آدم علیہ السلام کی کی اولاد ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف ہو جائیں، بیماروں کا علاج و تیمارداری کریں، بھوکوں کو کھانا کھلائیں اور ننگوں کو کپڑے پہنائیں، مسافرین کی مدد کریں، ان کی خاطر و مدارت کریں، مہمانوں کا خیال رکھیں اور اپنے دسترخوان کو کشادہ رکھیں۔ غرض دین اسلام نے نیکی، بھلائی، سچائی، دیانتداری طہارت و پاکیزگی، ایثار و خلوص، ہمدردی، محبت، مروت کی تعلیم دی ہے۔ یہی نہیں بلکہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں اور ان کے خداؤں کو برا نہ کہنے کا حکم دیا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قدر خوبیوں کے حامل دین اسلام اور اس کے ماننے والوں کو صرف اور صرف اس لئے بدنام کیا جاتا ہے تاکہ انسانوں کو دین اسلام کے قریب آنے سے روکا جائے لیکن دشمنوں کی ان تمام کوششوں کے باوجود اولاد آدم کی ایک کثیر تعداد دامن اسلام میں پناہ لے رہی ہے۔ دین کے دشمنوں نے جب دیکھ لیا کہ ان کی تمام تدابیر ناکامی سے دوچار ہو رہی ہیں تب انہوں نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کا منصوبہ بنایا اور بہت ہی سوچ سمجھ کر ’’مسلم دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح گڑھ لی اور پھر 2001 میں امریکہ پر دہشت گردوں کے فضائی حملوں کا بہانہ بناکر اس اصطلاح کو بڑے پیمانے پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ پر جو دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں اس کے حقیقی ذمہ دار کون ہیں اور یہ سازش کس کے خلاف اور کس نے رچی تھی؟ جہاں تک دین اسلام کا تعلق ہے اسلام نے ہمیشہ سامراجی طاقتوں کی مخالفت کی ہے۔ تجارت میں بددیانتی کو جرم اور گناہ قرار دیا ہے۔ سودی نظام کی مخالفت کی ہے اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف موثر اقدامات کرنے پر زور دیا ہے ایسے میں سامراجی طاقتیں یہ برداشت نہ کرسکیں کہ دین اسلام کا صالح و انصاف پرور اور انسانیت نواز نظام ان کے عزائم کو ناکام بنادے۔ سامراجی طاقتیں دراصل شیطان کے آلۂ کار اور دجال کے پیرو ہیں۔ بہرحال اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ کر اسے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوششیں بڑی تیزی سے جاری ہیں اور ان حالات میں میڈیا کے ذریعہ ہی اس طوفان بدتمیزی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ انگریزی چونکہ عالمی سطح پر رابطہ کی ایک اہم زبان ہے ایسے میں عالم اسلام کے سنجیدہ رہنماؤں کے لئے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ عالمی سطح کا اسلامک ٹی وی چیانل شروع کرتے۔ اس معاملہ میں صدر ترکی رجب طیب اردغان، مہاتر محمد اور عمران خان نے پہل کی ہے۔ ان تینوں کا کہنا ہے کہ اس چیانل کا مقصد اسلام سے متعلق پھیلائی جارہی غلط فہمیوں کو دور کرنا اور لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے واقف کروانا ہے۔ اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مسلمان حقیقت میں مسلمان بن جائیں۔ حکمرانوں سے لے کر تاجرین تک اور خواص سے لے کر مسلمان پوری طرح اسلام میں داخل ہو جائیں تو پھر ہمیں اس طرح کے ٹی وی چیانلس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی بلکہ ہر مسلمان غیر مسلمین کو سچائی و دیانتداری، تدبر و تفکر، شجاعت و بہادری، اخلاق و کردار، محبت و مروت، ایثار و اخلاق کا پیکر نظر آئے گا اور اسلام کا چلتا پھرتا سفیر دکھائی دے گا۔ اگر مسلمان ایسے ہوں تو دشمن بھی دوست ہو جائیں گے اور دامن اسلام میں پناہ لینے پر وہ مجبور ہو جائیں گے۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کے لئے سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ واہل بیت اطہار ؓ، تابعینؒ و تبع تابعینؒ کی زندگیاں مشعل راہ ہیں اور اس نور یا روشنی سے مسلمان دین کی روشنی پھیلا سکتے ہیں لیکن اس کے لئے اخلاص چاہئے اور اخلاص، حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیدا ہوتا ہے۔
عالمی سطح پر پائے جانے والے اسلاموفوبیا کے تعلق سے ہر دردمند مسلم حکمراں اور مسلمان کافی فکرمند ہے۔ ان میں صدر ترکی رجب طیب اردغان، مہاتر محمد جیسے رہنما سرفہرست ہیں۔ اگرچہ اسلامی ٹی وی چیانل شروع کرنے کا اعلان پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کیا لیکن اس معاملہ میں پہل کرنے کا سہرا رجب طیب اردغان کے سَر جاتا ہے جو فی الوقت دشمنان اسلام کی نظروں میں برُی طرح کھٹک رہے ہیں۔ تقریباً 92 سال عمر کے باوجود مہاتر محمد کا جذبۂ ایمانی بالکل جوان ہے اور وہ بلا خوف و خطر دین کے دشمنوں کے بارے میں ببانگ دہل اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اسلامک انگریزی ٹی وی چیانل ان کے بلند عزائم کی ایک مثال ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی سطح پر اسلام کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور ہوں اور لوگ اسلام کی سچائی اور اس کی حقانیت کو سمجھیں۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اسلامک ٹی وی چیانل کے آغاز سے توہین رسالتؐ جیسے سنگین مسئلہ میں نمٹنے سے مدد ملے گی اور دنیا کو احساس ہوگا کہ مسلمان چاہے وہ اس کرہ ارض کے کسی حصے میں کیوں نہ ہو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی جان ومال، آل و اولاد سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ یہ ٹی وی چیانل بی بی سی کی طرز پر کام کرے گا۔٭
mriyaz2002@yahoo.com