یہ مارچ1995کی بات ہے جب میں این ڈی ٹی وی کے لئے گجرات اسمبلی الیکشن کور کررہاتھا۔ مذکورہ اسمبلی الیکشن میں اس علاقے میں بی جے پی بھی نئی پارٹی تھی۔
پہلی مرتبہ بی جے پی گجرات میں اپنے دم پر حکومت کی تشکیل کے موقف میں تھی۔ یہ الکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے تجربے کا دور تھا۔
اور رائے دہی کافی سست تھی‘ لیکن جیسے جیسے الیکشن کے نتائج آنا شروع ہوئے‘ احمد آباد کے خان پور علاقے میں واقعہ بی جے پی دفتر میں امیدیں بڑھتی گئیں۔ شام ہوتے ہوتے یہ واضح ہوگیا کہ بی جے پی کامیابی کی طرف گامزن ہورہی ہے۔
اس الیکشن میں بی جے پی نے 182میں سے 121سیٹوں پر جیت حاصل کردوتہائی اکثریت سے جیت حاصل کرلی تھی۔ پارٹی دفتر میں آنے والے لیڈروں کا گرم جوشی سے استقبال ہورہا تھا۔ کیشوبھائی پٹیل چیف منسٹر کے دعویدارتھے۔
شنکر سنگھ واگھیلا اور کانشی رانا کھرکھے دوسرے لیڈران گجراتی میٹھائی کھارہے تھے۔
وہیں الیکشن مہم کی کہانی لکھنے اور اس کے باریکی سے جائزہ لینے والی مودی ایک کونے میں موجودتھے۔
کیمروں کی لائٹ دوسرے سینئر لیڈروں پر تھی‘ لیکن مجھے یاد جب جذباتی ہوکر کیمرہ پر مودی نے مجھ سے کہاتھا ”یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خوش کا لمحہ ہے“۔
گاندھی نگر کے ایک عالیشان تقریب میں کیشو بھائی پٹیل کو 19مئی1995کو بی جے پی کے پہلے چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف دلایاگیا۔
ایک بار پھر مودی مرکزتوجہہ نہیں تھے۔ لیکن پارٹی میں ہونے والی چہ میگوئیوں میں انہیں ”سوپر چیف منسٹر“ کی شکل میں پیش کیاجانے لگا۔
اسی سال اکٹوبر میں واگھیلہ کی قیادت میں پارٹی کے اندر بغاوت ہوئی اور کیشو بھائی پٹیل کو استعفیٰ دینا پڑا۔ سمجھوتا کے شکل میں درمیانی راستہ نکالا گیا۔
سریش مہتا کو گجرات کانیا چیف منسٹر بنایاگیا اور مودی کو بی جے پی کا قومی جنرل سکریٹری بناکر ہریانہ ک علاوہ ہماچل پردیش کاانچارک بناکر شمالی ہند بھیج دیا گیا۔
مودی پر الزام تھا کہ وہ ریاست میں تقسیم کرواو رحکومت کرو کی حکومت عملی کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ ماضی میں یہ مودی کے سیاسی سنیاس کا سال تھا۔
وہ نئے چیالنجوں میں شدت لاسکتے تھے‘ لیکن ان دل ہمیشہ گجرات میں لگارہا۔ میرے ایک دوست نے کئی مواقعوں پر کہا”وہ ابھی بھی گجرات کے چیف منسٹر بننا چاہتے ہیں‘ اور یہ ان کی آخری ابھیلاشا ہے۔
جب دہلی میں ان کا موقف اچھا ہوگیاتو وہ قومی مسائل پر بولنا چاہتے تھے۔ ہندی میں مودی بہت ہی صاف ستھرا ترجمان تھے۔ ایک مرتبہ میں ارنب گوسوامی کے ساتھ رات دس بجے ایک نیوز اور پروگرام کررہاتھا۔
قریب ساڑھے اٹھ بجے ہمارے پہلے سے طئے بی جے پی کے مہمان وائے کمار ملہوترہ نہیں ائے۔ ہم ان کی جگہ کسی لیڈر کی تلاش میں تھے۔
اس وقت میں نے کہاکہ دہلی میں ایک شخص کو جانتا ہوں ہوسکتا ہے وہ اس وقت ہماری مدد کرے سکے۔ میں نے مودی کو فون کیا او رگجراتی میں بولا ”آجاؤ نریندر بھائی تمہاری ضرورت ہے‘۔ میرا ماننا یہ ہے کہ کسی کا دل اس کی زبان میں بات کرکے جیتا جاسکتا ہے۔
مودی نے گہری سانس لی اور قریب ساٹھ سکینڈ کی خاموشی کے ساتھ بولے کہ وہ اس پروگرام میں آنے کے لئے تیار ہیں‘ لیکن ان کے پاس کار نہیں ہے۔
اس وقت مودی پارٹی دفتر کے پڑوس میں اشوک روڈ پردوسرے پرچارکوں کے ساتھ رہا کرتے تھے۔
میں نے انہیں ٹیکسی سے آنے کے لئے کہا او ریہ وعدہ کیاکہ ٹیکسی کا کرایہ ادا کردیا جائے گا۔
رات دس بجے پروگرام کا وقت قریب آرہاتھا ارنب اور میں اس ماحول کو لے کر کافی پریشان تھے۔ گھڑی کی سوائیں لگاتا ٹک ٹک کررہی تھی‘ لیکن ابھی بھی مودی کا کوئی نشان نہیں تھا۔
پروڈیوسر میرے کان میں کچھ کہہ رہے تھے کہ اچانک مودی جلدی جلدی اسٹوڈیو میں آتے دیکھائی دئے۔
آتے ہیں انہوں نے زور سے بولا راجدیپ میں آگیاہوں‘ میں آگیاہوں“۔جولائی 2001میں جب جنرل مشرف اگرہ اجلاس میں ائے‘ مودی پھر ہمارے لئے مدد گار بنے۔
ہم اگرہ سمیٹ اجلاس لگاتار نشر کررہے تھے اور اس کے لئے ہمیں بی جے پی کے ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو زیادہ سے زیادہ وقت ہمارے لئے دستیاب رہ سکے۔
بارش کی وجہہ سے سٹلائیٹ میں مسائلہ پیدا ہونے کے باوجو د دوگھنٹوں تک چھتری لے کر وہ انتظار کرتے رہے۔
یہ وہ دور تھا جب مودی اپنے وقت کے لیڈروں میں الگ تھلگ پڑ گئے تھے۔ پرمودمہاجن حکومت کے ایک اہم منسٹر ہونے کے ساتھ ہی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دہانے ہاتھ بن گئے تھے۔
سشما سوراج اپنی تقریری صلاحیتوں کی وجہہ سے پارٹی حامیوں کی پسند تھیں او ربیلاری میں سونیاگاندھی کو چیالنج کرنے کے ان کے فیصلے نے سیاست میں انہیں جنگجو کے طور پر پیش کردیا۔
ارون جیٹلی بھی پارٹی کے مشکل گھڑے میں کام آنے والے لیڈر کے طور پر منظرعام پر آنے لگے۔ ان سب سے الگ مودی ابھی اپنی پہچان بنانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے۔