ستم تو یہ کہ ہماری صفوں میں شامل ہیں
چراغ بجھتے ہی خیمہ بدلنے والے لوگ
ملک کی کئی اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی کے خلاف متحدہ مقابلہ کیلئے اتفاق کیا ہے اور ان کا اجلاس کہا جا رہا ہے کہ کامیاب رہا ہے ۔ اجلاس میں آئندہ اجلاس شملہ میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ آئندہ اجلاس میں نشستوں کی تقسیم جیسے اہم مسئلہ پربات چیت کرتے ہوئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ ایسے وقت میں جبکہ بی جے پی کے خلاف مقابلہ کیلئے اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کی کوششیں آگے بڑھ رہی ہیں اور ان میں پیشرفت ہو رہی ہے وہ عناصر بتدریج بے چین ہونے لگے ہیں جو بی جے پی سے مقابلہ کے نام پر بی جے پی کو مستحکم کرنے کی وجہ بنتے رہے ہیں۔ ان میں عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کجریوال کا نام بھی شامل رہا ہے ۔ وہ گجرات ‘ گوا اور دوسری ریاستوں میں بی جے پی سے مقابلہ کے نام پر کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار کرچکے ہیں۔ اب جبکہ تمام اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق کے ذریعہ بی جے پی کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ایسے میں اروند کجریوال اور ان ہی کی قبیل کے کچھ اور کارندے سرگرم ہوگئے ہیں اور وہ اپوزیشن اتحاد کو ناکام بنانے یا اس پر تنقید کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے دارالحکومت دہلی پر انتظامی اور عاملہ کنٹرول سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف جو آرڈیننس جاری کیا گیا ہے اس کو بہانہ بناتے ہوئے عام آدمی پارٹی ایک طرح سے اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ کئی جماعتیں اس مسئلہ پر عام آدمی پارٹی کا ساتھ دے چکی ہیں اور ہر ایک کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے ۔ اسی طرح کانگریس کی بھی اپنی پالیسی ہے اور اس نے ابھی تک اروند کجریوال کے موقف کی تائید نہیں کی ہے ۔ علاوہ ازیں کانگریس نے بی جے پی کی تائید بھی نہیں کی ہے اور تاحال خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ ایسے میں عام آدمی پارٹی کانگریس کو ایک بار پھر نشانہ بنانے میں جٹ گئی ہے ۔ کانگریس کے نام پر اپوزیشن اتحاد کو متاثر کرنے کی در پردہ کوششیں بھی شروع کرچکی ہے اور اس کے عزائم واضح ہونے لگے ہیں۔
جو اپوزیشن جماعتیں نتیش کمار کی دعوت پر پٹنہ میں جمع ہوئی تھیں اور جن کے مابین اتحاد کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے اور آئندہ اجلاس میں بھی شرکت سے جن جماعتوں نے اتفاق کیا ہے خود ان میں بھی کئی اختلافات ہیں۔ ہر جماعت کی پالیسی اور نظریات مختلف ہیں ۔ سبھی میں ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ متضاد رہا ہے ۔ اس کے باوجود بی جے پی سے مقابلہ کے مقصد سے یہ جماعتیں متحد ہوچکی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بی جے پی کو شکست دینے کے مقصد پر متحد ہیں۔ اس کیلئے وہ ایک اقل ترین مشترکہ پروگرام بھی تیار کرنا چاہتی ہیں۔ ان نکات پرا تفاق کے ذریعہ آئندہ انتخابات میں ملک کو بی جے پی کا متبادل پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ باہمی اختلافات اور نظریات سے زیادہ ملک اور قوم کا مفاد اہمیت کا حامل ہے ۔ اسی لئے یہ جماعتیں متحد ہوئی ہیں۔ ایسے میںا گر اروند کجریوال ہو یا پھر بی جے پی سے مقابلہ کے نام پر کانگریس کو ختم کرنے کی مہم کے آلہ کار بنے ہوئے افراد سرگرم ہونے لگے ہیں۔ یہ در اصل اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کو ناکام بنانے کی سعی ہے ۔ اس کے ذریعہ ان جماعتوں کے چہرے بے نقاب ہونگے ۔ ملک کے عوام کو اور جو لوگ بی جے پی کی آمرانہ روش سے پریشان ہیں انہیں صورتحال اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی سے مقابلہ کے صرف دعوے کرنے والوں کو نہیں بلکہ ان کے عمل کو بھی دیکھا جائے ۔ ان کے قول و فعل میں یکسانیت کا جائزہ لیا جائے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں بی جے پی ایک طاقتور جماعت ہے ۔ اس کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ اس کے پاس انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اور عوام پر اثر انداز ہونے کے تمام عوامل بھی موجود ہیں۔ اس صورتحال میں اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد پیدا کرتے ہوئے اور جمہوری عمل کا سہارا لیتے ہوئے ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس مقابلہ کو اگر محض ذاتی اختلاف یا نظریاتی اختلاف کی وجہ سے کمزور کردیا جائے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ بی جے پی سے مقابلہ کا صرف نعرہ دیا جا رہا ہے اور حقیقت میں انتخابی کامیابی کیلئے بی جے پی کی بالواسطہ مدد کی جا رہی ہے ۔ ایسے عناصر کے حقیقی عزائم کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان سے چوکنا رہنا چاہئے ۔ باہمی اختلافات کو حل کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں ۔ ان کو اختیار کرتے ہوئے وسیع تر اتحاد کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔
کے سی آر کی بدلتی حکمت عملی
بی آر ایس کے سربراہ و چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے بی جے پی کے تعلق سے اپنی حکمت عملی میں اچانک تبدیلی پیدا کرلی ہے ۔ انہوںنے گذشتہ دو سال سے مرکزی وزراء اور حکومت کے اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے کی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے اب ان اجلاسوں میںشرکت کا آغاز کردیا ہے ۔ یہ تبدیلی ناگپور کے بیان کے بعد آئی ہے ۔ آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر والے شہر ناگپور میں کے سی آر نے نریندر مودی کو اپنا چھا دوست قرار دیا تھا ۔ گذشتہ دو برس سے حالانکہ وہ نریندر مودی اور بی جے پی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے تھے تاہم ناگپور دورہ پر انہوں نے مودی کو اپنا دوست قرار دیا تھا اور اب مرکزی حکومت کے اجلاسوں اور ملاقاتوں کے بائیکاٹ کا سلسلہ انہوںنے ختم کردیا ہے ۔کے سی آر اب بی جے پی کے تعلق سے نرمی اختیارکرچکے ہیں اور ایک طرح سے انہوں نے ملک میں اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی جو کوششیں شروع کی تھیں ان سے بھی عملا دستبردار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے پٹنہ میں اپوزیشن اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی اور اسی دن انہوں نے اپنے فرزند و ریاستی وزیر کے ٹی آر کو دہلی میں مرکزی وزراء سے ملاقات کیلئے روانہ کردیا ۔ کے سی آر کی اس پالیسی سے ان کے موقف کی کمزوری کا پتہ چلتا ہے ۔ جس طرح سے انہوں نے بی جے پی کے خلاف سخت گیر موقف اختیار کیا تھا وہ اب نرمی میں بدل چکا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے دہلی شراب اسکام میں اپنی دختر کے کویتا کو بچانے کیلئے یہ دوستی کی ہے ۔ اس دوستی کا تاہم تلنگانہ اسمبلی انتخابات پر ضرور اثر ہوسکتا ہے اور ریاست کے اقلیتی ووٹرس اور مخالف بی جے پی رائے رکھنے والے عوام پارٹی سے دوری اختیار کرسکتے ہیں۔