اپوزیشن اتحاد کی سمت پیشرفت

   

یہ دنیا ہے یہاں پر یہ تماشہ ہو بھی سکتا ہے
ابھی جو غم ہمارا ہے تمہارا ہو بھی سکتا ہے
ملک کی کئی اپوزیشن جماعتوں نے بالآخر آئندہ پارلیمانی انتخابات میں متحدہ اور مشترکہ مقابلہ کرنے کی سمت پہلا قدم اٹھالیا ہے ۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار کی دعوت پر پٹنہ میںمختلف اپوزیشن جماعتوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں کئی قائدین نے شرکت کرتے ہوئے ایک بات پر ضرور اتفاق کیا ہے کہ انہیں آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف مشترکہ اور متحدہ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہ اس مسئلہ پر اتفاق رائے رکھتے ہیں اور اس بات سے بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں کا ایک اور اجلاس آئندہ ماہ 10 یا 12 جولائی کو شملہ میں منعقد کیا جائیگا ۔ شملہ اجلاس میں مختلف جماعتوں میں نشستوں کی تقسیم اور دیگر امور کو قطعیت دی جائے گی ۔ یہ ایک اچھی پیشرفت اور علامت کہی جاسکتی ہے ۔ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے ‘ پارٹی لیڈر راہول گاندھی کے علاوہ ترنمول کانگریس سربراہ ممتابنرجی ‘ آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو ‘ خود نتیش کمار ‘ چیف منسٹر ٹاملناڈو ایم کے اسٹالن اور کئی قائدین اجلاس میں شریک رہے ۔ سبھی قائدین کا اس بات پر ضرور اتفاق ہوا ہے کہ انہیں آئندہ انتخابات ایک دوسرے سے اشتراک کرتے ہوئے لڑنا چاہئے ۔ بی جے پی کے خلاف مقابلہ میں اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتفاق اور اتحاد اہمیت کا حامل ہے اور اس کے ذریعہ اپوزیشن کی صفوں میں حوصلے پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور بات طئے کی گئی ہے کہ اسے اپوزیشن بمقابلہ بی جے پی قرار دینے کی بجائے بی جے پی کی آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا نام دیا جائے ۔ یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی کی مودی حکومت نے آمرانہ روش اختیار کی ہوئی ہے ۔ وہ اقتدار کے زعم اور اکثریت کے غرور میں مبتلا ہے ۔ اپوزیشن کی آواز اور تجاویز کی سماعت کرنے کی بجائے اپوزیشن کو برداشت کرنے بھی تیار نہیں ہے ۔ ہر فیصلہ من مانی انداز میں کیا جا رہا ہے ۔ کسی بھی فیصلے کا کوئی جواز پیش کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ کسی سوال کا جواب دینے کو بھی کوئی تیار نہیں ہے ۔ ہر فیصلہ اپنے طور پر کرتے ہوئے اسے سارے ملک اور ملک کے عوام پر بزور طاقت مسلط کیا جا رہا ہے ۔
جن اپوزیشن جماعتوں کا آج پٹنہ میں اجلاس منعقد ہوا تھا ان میں کئی جماعتیں ایسی ہیں جن میں باہمی اور آپسی اختلافات بھی ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے ۔ ہر جماعت کا اپنا ایک نظریہ اور ایک سوچ ہوتی ہے اور وہ اسی کے مطابق کام کرتی ہے ۔ اس لئے اختلاف رائے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مخصوص مسائل پر اتفاق اور اتحاد کرنے کیلئے آگے آنا اہمیت کا حامل ہے ۔ آج ملک کی ہر جماعت کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ بی جے پی ملک کو کانگریس سے نجات دلانے کا نعرہ دیتے ہوئے در حقیقت تمام اپوزیشن جماعتوں کا صفایا کرنے کے عزائم اور منصوبے رکھتی ہے ۔ یکے بعد دیگر خود بی جے پی اپنی ہی حلیف جماعتوں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہی ہے ۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں بی جے پی سے دوستی کرنے کے نتیجہ میں کئی جماعتوں کا اپنا وجود ہی خطرہ میں پڑگیا تھا ۔ اس اتحاد سے کسی اور جماعت کو کبھی فائدہ نہیں ہوا صرف بی جے پی نے اپنا موقف مستحکم کیا ہے ۔ اب تمام جماعتیں جب ایک بار پر متفق ہوچکی ہیں کہ انہیں بی جے پی سے مشترکہ اور متحدہ مقابلہ کرنا ہے تو پھر آئندہ کی حکمت عملی کا تعین کرنے میں بھی سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے عوام کے سامنے بی جے پی کا ایک متبادل بن کر پیش ہونا چاہئے ۔ ایسے منصوبے اور پروگرامس پیش کرنے کی ضرورت ہے جن کے ذریعہ عوام کی تائید حاصل کی جاسکے ۔ عوام کی تائید حاصل کرنے کیلئے اپوزیشن کا صرف متحد ہوجانا کافی نہیں ہے اس کیلئے بہت کچھ کیا جانا چاہئے ۔
پٹنہ اجلاس ایک اچھی پہل ضرور کہا جاسکتا ہے ۔ باہمی اور آپسی اختلاف رائے کے باوجود ایک مقصد کیلئے یہ جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئی ہیں اور اب آئندہ کی حکمت عملی زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ کئی قائدین کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا بھی اہم تھا تاہم آئندہ کے اقدامات پر بھی خاص توجہ کی ضرورت ہوگی ۔ ایک دوسرے سے مشاورت اور تجاویز کے ذریعہ متبادل پروگرامس تیار کئے جانے چاہئیں۔ عوام کے موڈ کو سمجھتے ہوئے فیصلے کئے جانے چاہئیں۔ بی جے پی کا ہر محاذ پر مقابلہ کرنے اورجواب دینے کی حکمت عملی طئے کی جانی چاہئے تاکہ اتحاد کی جو پہل پٹنہ سے ہوئی ہے اس کا سفر نئی دہلی تک پہونچ سکے ۔