اپوزیشن جماعتوں کا مجوزہ پٹنہ اجلاس

   

بی جے پی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر لانے کیلئے چیف منسٹر بہار نتیش کمار کی کوششوں میں تیزی آتی جا رہی ہے ۔ نتیش کمار بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں 12 جون کو ایک اہم اجلاس منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ اس اجلاس میں ان تمام اپوزیشن جماعتوں کو مدعو کیا جارہا ہے جو بی جے پی کی مخالفت کرنا چاہتی ہیں اور آئندہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کے مقصد سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہتی ہیں۔ نتیش کمار نے اپوزیشن کی صفوںمیں اتحاد پیدا کرنے کیلئے اب تک کئی دورے کئے ہیں اور کئی قائدین سے ملاقاتیں اور بات چیت کی ہے ۔ نتیش کمار کانگریس صدر ملکارجن کھرگے ‘ سینئر لیڈر راہول گاندھی ‘ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال ‘ چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی ‘ این سی پی سربراہ شرد پوار ‘ سماجوادی پارٹی لیڈر اکھیلیش یادو اور کئی دوسروں سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ اب تک ان کی جو سرگرمیاں رہی ہیںان پر مثبت رد عمل ہی حاصل ہوا ہے اور جن قائدین سے بات چیت ہوئی ہے انہوں نے اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کی حمایت کی ہے ۔ یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ کئی جماعتیں پٹنہ کے اجلاس میںشرکت کریں گے ۔ ان میں ترنمول کانگریس ‘ این سی پی ‘ ڈی ایم کے ‘ جھارکھنڈ مکتی مورچہ ‘ عام آدمی پارٹی ‘ سماجوادی پارٹی ‘ راشٹریہ جنتادل کے علاوہ کانگریس بھی شامل ہے ۔ حالانکہ کانگریس لیڈر راہول گاندھی امریکہ کے دورے پر گئے ہیں تاہم کسی اور لیڈر کو اس اجلاس میں شرکت کیلئے روانہ کرنے کی کانگریس نے توثیق کی ہے ۔ اس طرح یہ کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششوں میں ایک قدم اور پیشرفت ہوئی ہے اور ایک مرحلہ آگے بڑھنے لگا ہے ۔ جب اجلاس کے انعقاد کو قطعیت ہو جائیگی اور جو جماعتیں اس میں شرکت کرنے والی ہیں ان کے تعلق سے وضاحت ہوجائے تو پھر آگے کے لائحہ عمل کو قطعیت دینے کا مرحلہ آئے گا اور جو جماعتیں اب تک اس اتحاد سے دور ہیں ان کو اس میں شامل کرنے کیلئے کوششیں تیز ہوسکتی ہیں۔ ابتداء میں بھی جو جماعتیں اس میںشریک ہو رہی ہیں وہ بھی حوصلہ افزء تعداد ہی ہے ۔
اب جبکہ ابتدائی بات چیت کا مرحلہ آگے بڑھا ہے اور ایک اجلاس مشترکہ منعقد کرنے تک بات ہو رہی ہے تو یہ سبھی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اجلاس کے تعلق سے سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ صرف آپس میں اتحاد کے دعوے کرنے سے صورتحال کا سامناکرنے میں کامیابی نہیں ملے گی ۔ جو چیلنج انتخابات میں درپیش ہوسکتا ہے وہ آسان نہیں ہوسکتا ۔ بی جے پی ایک بڑی اور طاقتور جماعت ہے ۔ اس کے پاس وسائل اور مشنری کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ انتخابی عمل میں اس کی مدد کرنے اس کے پاس ہم خیال تنظیمیںاورا دارے موجود ہیں۔ حکومت بی جے پی کی ہے اور انتخابی حربوں اور ہتھکنڈوں سے بھی بی جے پی اچھی طرح سے واقف ہے ۔ کانگریس نے ضرور کرناٹک میں بی جے پی کو شکست سے دو چار کیا ہے لیکن ملک بھر میں ہر ریاست میں حالات مختلف ہوتے ہیں اور سبھی جماعتوں کو بی جے پی کی طاقت اور اس کے وسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکمت عملی بنانے پر غور کرناچاہئے ۔ اپنے اپنے خیالات اور تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک حکمت عملی تیار کرنے میں سبھی جماعتوں کو اپنی اپنی رائے ظاہر کرنی چاہئے ۔ کسی اور سے اختلاف رائے ہونے پر ناراضگی ظاہر کرنے کی بجائے وسیع القلبی سے اختلاف رائے کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی کی طاقت کو ذہن میں رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی کمزوروں پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے ۔ یہ سب کچھ کرنا آسان ہرگز نہیں ہے ۔
جو جماعتیں پٹنہ کے مجوزہ اجلاس میں شرکت کریں گے ان کے بعد دیگر مزید جماعتوں کو بھی اس میںشامل کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ریاستی سطح پر اگر کچھ جماعتوں میں اختلافات ہوں تو ان پر سر عام اظہار خیال کرنے کی بجائے آپسی تبادلہ خیال کے ذریعہ ان پر قابو پایا جانا چاہئے ۔ ہر جماعت کو اپنی طاقت اور مخالف کی طاقت دونوں کو دیانتداری سے سمجھنے اورا س کے مطابق پروگرام تیار کرنا چاہئے ۔ صرف بلند بانگ دعووں یا پھر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ضرورت سے زیادہ امیدیں باندھ لینے سے کام نہیں ہوگا ۔ حقیقی صورتحال کو سمجھنے اور چیلنجس کو نظر میں رکھنے کے علاوہ ان سے نمٹنے کی موثر حکمت عملی بنانے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔