ٹوٹ جائے نہ کہیں پھر یہ بھرم اشکوں کا
دوست بھی لے کے عجب شکل و شباہت آئے
ملک کی تقریبا دو درجن جماعتوں کے اپوزیشن قائدین آج بنگلورو پہونچ چکے ہیں ۔ وہ پیر کی شام سابق کانگریس صدر سونیا گاندھی کے ڈنر میں شرکت کرنے کے علاوہ منگل کو ہونے والے اپوزیشن اتحاد کے اجلاس میں شرکت کریں گے اور پٹنہ میں ہوئے اجلاس سے اب تک کی پیشرفت کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کے منصوبوں کو بھی قطعیت دینے کی کوشش کی جائے گی ۔ جس وقت پٹنہ میں اجلاس ہوا تھا اس وقت بی جے پی یا برسر اقتدار این ڈی اے کی جانب سے اس کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی تھی ۔ تاہم اس اجلاس کے بعد ایسا تاثر عام ہوا ہے کہ بی جے پی کو اپوزیشن اتحاد سے تشویش لاحق ہوئی تھی ۔ اسی وجہ سے اپوزیشن اجلاس کو نظریاتی اختلافات والی جماعتوں کے اجتماع کا نام دیا گیا تھا تاہم اب خود بی جے پی ملک کی سب سے طاقتور جماعت ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود زیادہ سے زیادہ تعداد میں جماعتوں کو اپنی حلیف بنانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اگر کچھ اپوزیشن جماعتوں کو اس اتحاد میں شامل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے تو ان جماعتوں کے کچھ قائدین کو انحراف کیلئے اکساتے ہوئے انہیں این ڈی اے اجلاس میں شامل کیا جا رہا ہے ۔ اسی طرح جو جماعتیں این ڈی اے کو خیرباد کہہ گئی تھیں اور این ڈی اے کے ذمہ داروں پر تنقیدیں کر رہی تھیں انہیں بھی واپس این ڈی اے میں شامل کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بی جے پی کے ساتھ زیادہ حلیف جماعتیں ہیں۔ ان جماعتوں کے اتحاد پر پہلے تو اعتراض کیا گیا تھا تاہم اب خود بی جے پی وہی راستہ اختیار کرنے پر مجبور دکھائی دے رہی ہے ۔ پٹنہ اجلاس کے بعد بی جے پی کے موقف اور رویہ میں یہ تبدیلی واضح طورپر محسوس ہونے لگی ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پٹنہ کے اجلاس میں کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی شریک نہیں ہوئی تھیں۔ پارٹی صدر ملکارجن کھرگے اور راہول گاندھی شریک تھے ۔ تاہم بنگلورو اجلاس میں ایسا لگتا ہے کہ سابق کانگریس صدر سونیا گاندھی نے اب اپوزیشن اتحاد کی کمان سنبھالنے کا ارادہ کرلیا ہے ۔
سونیا گاندھی نے جہاں تمام اپوزیشن قائدین کو بنگلورو میں آج شام عشائیہ پر مدعو کیا ہے وہیں وہ کل کے اجلاس میں بھی خود شریک رہیں گی اور تمام جماعتوں کے قائدین کے ساتھ بات چیت میں بھی حصہ لیں گی ۔ اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوششوں میں یہ ایک بڑی اور اہم تبدیلی کہی جاسکتی ہے کیونکہ اتحاد کا حصہ بننے کی خواہش کے باوجود کچھ جماعتوں کو راہول گاندھی کی قیادت پر اعتراض ہوسکتا ہے اور کچھ نے ایسا اظہار بھی کیا ہے تاہم سونیا گاندھی کے تعلق سے تقریبا تمام جماعتوں میں ایک الگ احساس پایا جاتا ہے اور وہ سونیا گاندھی کی قبولیت سے انکار نہیں کرسکتے ۔ سونیا گاندھی یو پی اے کی صدر نشین بھی رہی ہیں اور انہیں کئی دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور سبھی کو متحد رکھنے کا تجربہ بھی حاصل ہے ۔ ایسے میں سونیا گاندھی کی اجلاس میں شرکت اور ایک طرح سے قائدانہ ذمہ داری سنبھالنے کے اشارے اپوزیشن اتحاد کیلئے مثبت کہے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پٹنہ اجلاس کے بعد سے بنگلورو ملاقات تک کیا کچھ پیشرفت ہوئی ہے وہ بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ کل کے اجلاس میں اس تعلق سے کوئی واضح اشارے مل سکتے ہیں ۔ جو جماعتیں پٹنہ اجلاس سے دور رہی تھیںان کی بنگلورو اجلاس میں شرکت بھی اہمیت کی حامل کہی جاسکتی ہے ۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ دیکھنا ہے کہ آیا یہ جماعتیں ایک اقل ترین مشترکہ پروگرام یا پھر ملک کیلئے کوئی متبادل منصوبہ پیش کرنے میں کامیاب ہوپاتی بھی ہیں یا نہیں ۔
کرناٹک کے انتخابی نتائج کے بعد جس طرح سے ملک کی سیاست میں تبدیلی پیدا ہونے لگی ہے اسی طرح اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کو بھی تقویت ملی ہے ۔ اگر ملک کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں کانگریس کی کارکردگی بہتر رہتی ہے تو پھر اس اتحاد کو مزید تقویت مل سکتی ہے اور اس کے انتخابی امکانات بھی بہتر ہوسکتے ہیں۔ بنگلورو اجلاس میں سونیا گاندھی کی شرکت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کانگریس سبھی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کے تعلق سے کتنی سنجیدہ ہے اور وہ ملک کے عوام کے سامنے ایک بہتر اور موثر متبادل پیش کرنے کی کم از کم اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کرتی دکھائی دے رہی ہے ۔