اپوزیشن کا آئندہ اجلاس

   

ملک میں آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی تیاریوں کے ضمن میں اپوزیشن جماعتوں کا ایک اجلاس 18 جولائی کو نگلورو میں ہونے والا ہے ۔ ان جماعتوںک ا ایک اجلاس بہار کے دارالحکومت پٹنہ میںچیف منسٹر نتیش کمار کی دعوت پر ہوچکا ہے ۔ اب دوسرا اجلاس کانگریس اقتدار والی ریاست کرناٹک میں ہونے والا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ کانگریس قائدین سونیا گاندھی اور راہول گاندھی دونوں ہی اس اجلاس میں شرکت کریں گے ۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کو بھی اس کیلئے مدعو کیا گیا ہے اور اجلاس سے ایک دن قبل سونیا گاندھی سبھی قائدین کیلئے ڈنر کا اہتمام کرسکتی ہیں۔ کانگریس کی جانب سے اپوزیشن اتحاد کیلئے یہ ایک اور کوشش ہے خاص طور پر اس تناظر میں جبکہ مہاراشٹرا میں بی جے پی نے این سی پی میں پھوٹ کو یقینی بنایا ہے اور وہاں شرد پوار کا ان کے بھتیجے اجیت پوار نے ساتھ چھوڑ دیا ہے اور وہ ایکناتھ شنڈے حکومت میں شامل ہوگئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی اب بہار میں بھی اسی طرح سے جے ڈی یو میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ یہ بھی دعوی کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کو ناکام بنانے اور اسے حتمی شکل اختیار کرنے سے روکنے کیلئے مہاراشٹرا کانگریس میں بھی پھوٹ کی اور انحراف کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے ۔ جو حالات پٹنہ کے اجلاس کے بعد پیدا ہوئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو اپوزیشن اتحاد کی وجہ سے فکر و تشویش لاحق ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے خلاف مہم شروع کی گئی ہے ۔ شرد پوار کی پارٹی میں پھوٹ کے بعد یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں بجائے خود مستحکم نہیں ہیں تو وہ ملک کو ایک مستحکم متبادل کس طرح سے فراہم کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اور جماعتوں کو بھی نشانہ بنانے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔ ایسے میں بنگلورو میں ہونے والا اجلاس بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں راہول گاندھی کے علاوہ سونیا گاندھی بھی شرکت کرنے آمادہ ہوگئی ہیں۔ وہ اپوزیشن اجلاس سے قبل سبھی قائدین کو ڈنر پر مدعو کرتے ہوئے بھی ایک واضح پیام دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
جیسے جیسے انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے سیاسی سرگرمیوںمیںاور سیاسی پروپگنڈہ میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے ۔ گودی میڈیا کی جانب سے بھی سرگرمی دکھاتے ہوئے ایسے موضوعات کو مباحث میںلایا جا رہا ہے جن کے ذریعہ رائے دہندوں کے ذہن کو پراگندہ کیا جاسکتا ہے ۔ ترقیاتی امور اور ملک کی معاشی صورتحال ‘ بیروزگاری ‘ مہنگائی خواتین کی سلامتی اور تحفظ جیسے مسائل کو ووٹر کے ذہن سے محو کرنے کی کوششیں ابھی سے شروع کردی گئی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں جس طرح سے ایک مقصد کے تحت متحد ہونا چاہتی ہیں اس کی موجودہ حالات میں بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ تمام جماعتوں کو بی جے پی کی تنظیمی اور سیاسی طاقت کا بھی احساس ہے اور اپنی اپنی کمزوریوں سے بھی یہ جماعتیں واقف ہیں۔ ایسے میں اگر یہ جماعتیں آپس میں متحد نہیں ہوتی ہیں تو ان کیلئے سیاسی سفر مشکل ہوسکتا ہے ۔آئندہ انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینا کسی ایک جماعت کے بس کی بات بالکل بھی نہیں ہے ۔ علاقائی سطح پر کچھ جماعتیں اپنی اپنی ریاست میں مقابلہ ضرور کرسکتی ہیں لیکن سبھی جماعتوں کو ایک محاذ کی شکل میں بی جے پی سے متحدہ مقابلہ کی حکمت عملی کو قطعیت دینا ضروری ہے ۔ ایک جامع اور موثر متبادل پالیسی اور پروگرام بھی عام کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے ۔ صرف چند جماعتوں کا اجتماع عوام کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ ابھی انتخابات کیلئے چند ماہ کا وقت ضرور ہے لیکن اپوزیشن کے سامنے بھی کئی امور ہیں جن پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے لیکن یہ کام آسان بھی نہیں ہے ۔ اس کیلئے بھی وقت درکار ہوسکتا ہے ۔
پٹنہ اجلاس کے بعد بنگلورو اجلاس کی بھی اہمیت ہے ۔ جن جماعتوں میں انحراف ہوا ہے یا پھوٹ ہوئی ہے ان کو بھی حوصلہ شکنی سے گریز کرتے ہوئے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ از سر نو شروعات کیلئے کمر کس لینی چاہئے ۔ ایسا کرنے میں شردپوار مہارت رکھتے ہی ہیں۔ جو جماعتیں اپوزیشن اتحاد میں شامل ہیں انہیں بھی شرد پوار کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اگر کچھ اور جماعتوں میں بھی یہ صورتحال پیدا ہو تو وہ بھی حوصلہ ہار نہ بیٹھیں۔ بحیثیت مجموعی یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جتنی اہمیت پٹنہ اجلاس کی تھی اس سے کہیں زیادہ اہمیت اب بنگلورو اجلاس کی ہوچکی ہے اور سبھی جماعتوں کو اس کے مطابق کام کرنا چاہئے ۔