اپوزیشن کا اتحاد۔ خواب سے حقیقت تک

   

غضنفر علی خاں
آخرکار صدہزار کوششوں کے بعد اپوزیشن جماعتیں اپنے اتحاد کا ثبوت دینے میں کامیاب ہوگئیں۔ یہ ملک کی جمہوری اور انتخابی سیاست میں دوسرا اتفاق ہے کہ تمام جماعتیں جو سنگھ پریوار اور بی جے پی کے نظریہ سے اختلاف کرتی ہیں ملک بھر میں اکٹھا ہوئی ہیں۔ 1977 ء میں یعنی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کانگریس اور اس وقت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ اس دور میں ملک کی جمہوریت کو سخت خطرات لاحق ہوگئے تھے اور سوشلسٹ لیڈر آنجہانی جئے پرکاش نارائن کی قیادت میں تمام پارٹیوں نے مل کر جتنا پارٹی بنائی تھی۔ اب چوں کہ اپوزیشن کو متحد کرنے کوئی جئے پرکاش موجود نہیں ہے اس کے باوجود مہینوں کی بحث و تکرار کے بعد سیاسی پارٹیوں نے عقل سے کام کیا اور بالآخر بنگال کی چیف منسٹر جنہیں لوگ دیدی بھی کہتے ہیں نے کولکتہ میں ساری پارٹیوں کو ایک ریالی میں شرکت کا قائل کردیا۔ کولکتہ کی یہ ریالی گرانڈ الائنس کے قیام کا اعلان تھا۔ لاکھوں عوام کی شرکت اور کئی لیڈروں کی اس میں تقاریر نے واضح کردیا کہ جب بھی ملک کی جمہوریت اور اس کے سکیولرازم کو خطرات ہوگا وہ (تمام پارٹیاں) اپنے فروعی اختلاف کو ختم کرکے ملک دشمن طاقتوں کے مقابل ہوسکتی ہیں۔ اس ریالی نے عملاً (محاورتاً نہیں) بی جے پی اور سنگھ پریوار کی نیند اڑادی ہے۔ تمام بی جے پی لیڈر اس الائنس یا اتحاد پر بے تحاشہ تنقید کررہے ہیںسنگھ پریوار یہ کہہ رہا ہے کہ یہ الائنس وزیراعظم مودی کے خلاف ان پارٹیوں کا اتحاد ہے جو مودی کے خلاف ہیں اور جن کی سوچ منفی انداز کی ہے۔ مودی کی مخالفت نہ تو کوئی سیاسی غلطی ہے اور نہ ملک کے دستور کے خلاف کوئی بغاوت ہے۔ بی جے پی کی فکر سے اختلاف کرنا کوئی سیاسی گناہ ہرگز نہیں ہے یہ سمجھنا کہ صرف وہی ملک کے حقیقی ہمدردہیں وہی وطن دوست ہیں جو اس انداز فکر سے اتفاق کرتے ہیں، سراسر غلط ہے۔ وہی ہندو ہوسکتا ہے جو ہندوازم کی اس تشریح سے متفق ہو جو آر ایس ایس اور بی جے پی مودی کرتے ہیں۔ یہ ٹھیکہ داری اور مذہب کی چھاپ نے پچھلے 5 سال میں ملک میں تباہیمچادی، ملک کی یکجہتی برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کوئی دور نہیں یہ موجودہ حکومت نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کررہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اب اندازہ ہوگیا ہے کہ اگر بی جے پی کو ایک اور موقع حکومت بنانے کا مل جائے تو وہ اپنے پراگندہ حالات کو لاگو کردیں گے۔
چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے 23 اپوزیشن پارٹیوں کو ریالی میں مدعو کرکے ایک ایسا نادر مظاہرہ کیا کہ ہندوستانی عوام اس کو برسوں یاد رکھیں گے۔ مودی کی ساری کوشش یہ رہی کہ وہ اپنے اور پارٹی کے صدر امیت شاہ کے علاوہ کسی تیسرے چہرے کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی بات بھی نہیں کرتے۔ اگر کانگریس پر صرف نہرو گاندھی خاندان کی گرفت ہے تو کوئی بات نہیں نہرو۔گاندھی خاندان کی خدمات رہی ہیں۔ اس کو پارٹی فراموش نہیں کرسکتی لیکن اس سے بدتر بات یہ ہے کہ کسی پارٹی پر صرف دو افراد کا ہی کنٹرول ہو جیسا کہ بی جے پی پر ہے مودی کی قیادت میں بی جے پی میں بڑی تیزی کے ساتھ ’’شخصیت پرستی‘‘ Personality Cult پروان چڑھی۔ اب پارٹی کو اس کے علاوہ کوئی کام نہیں رہا کہ وہ اور اس کے تمام لیڈر اس ایک شخص واحد کی مالا جپیں جبکہ عوام شخصیت پرستی کے شکار نہیں ہیں وہ ہر اس قیادت کو ہی بہتر سمجھتے ہیں جو وقت کے تقاضوں کے مطابق کام کرتی ہے۔ عوام مودی کی لیڈرشپ سے صرف 5 سال کے عرصہ میں بیزار ہوگئے ہیں وہ (عوام) اس میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ عوام کو اندازہ ہوگیا ہے کہ پارٹی اور خود مودی جی ’’کلیت پسند‘‘ ہیں۔ وہ جمہوری اور دستوری اداروں کو مسمار کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اہمیت کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ عدلیہ کو کم تر اختیارات کا حامل بنانا چاہتے ہیں۔ سکیولرازم کا خاتمہ کرکے یہاں ہندوستان میں ہندوراشٹر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوستانی عوام ان میں سے کسی بات کو پسند نہیں کرتے کیوں کہ ہم تمام اس ملک کے شہری ہیں جہاں ہر شخص کو اپنے عقیدہ پر قائم رہنے کی آزادی اور حق حاصل ہے۔ اپوزیشن سکیولرازم اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑی ہے تو یہ کیوں کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن کا اتحاد مودی مخالف اور حقیقی ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔ اپنے کرتوت پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ عذر لنگ بناکر بی جے پی اب کچھ نہیں کرسکتی۔ تیر کمان سے نکل چکا ہے اور اپنے ہدف کا بھی اندازہ کرلیا کہ ’’ملک دشمن‘‘ طاقتوں کو اقتدار سے محروم کردیا جانا چاہئے۔
اپوزیشن کے متحد ہوجانے کے باوجود اس الائنس کو بھی بعض مشکلات درپیش ہیں۔ یہ وہ جماعتوں کا اثر و رسوخ بہتر صورتوں میں اپنے اپنے دائروں کو سمٹا ہوا ہے ان میں کوئی ملک گیر سطح کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ اسی لیے بی جے پی باربار کہہ رہی ہے کہ الائنس کے لیے وزیر اعظم کون ہوگا یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے لیکن ابھی سے وزارت عظمیٰ کے لیے الائنس کو صبروتحمل سے کام لینا چاہئے۔ جنتادل سکیولر پارٹی کے لیڈر اور کرناٹک کے چیف منسٹر نے بھی اپنے ساتھیوں کو یہی مشورہ دیا ہے۔ وہ اس وقت الائنس کے اہم لیڈر ہیں اس کے علاوہ اور بھی لیڈر ہیں جو ابھی سے تنازعہ اٹھانے کی غلطی کررہے ہیں۔ تمل ناڈو کی جماعت ڈی ایم کے کے صدر اسٹالن نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ وہ راہول گاندھی کی قیادت کو قبول کریں گے۔ حالانکہ ابھی سے ایسا کہنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی کوئی ایسا موقع نہیں ہے کہ اس قسم کی بات کی جائے کیوں کہ کانگریس جو الائنس میں پوری طرح سے شامل ہے کبھی راہول گاندھی کو آئندہ کے وزیراعظم کی حیثیت سے پیش نہیں کیا ہے۔ اس چکر میں پڑے بغیر الائنس کو بی جے پی کو شکست دینے پر ہی زور دینا چاہئے اور اپنے پلیٹ فارم سے مودی پر واجبی تنقیدوں پر اکتفا کرنا چاہئے۔ کیوں کہ صرف مخالف مودی باتوں سے عوام میں ان (مودی) کیلئے کوئی ہمدردی پیدا نہ ہوپائے۔ تنقید بہرصورت ہونی چاہئے اور مودی کے دور کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے لیکن اس میں توازن برقرار رکھنا پڑے گا۔ بہرحال ملک جمہوریت اور آمریت کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ اس لئے اب فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کرنا پرے گا۔