مایاوتی اور اکھیلیش یادو نے پریس کانفرنس میں تقریبا اسی فارمولہ کا انکشاف کیاجو اخبار والے اپنے ذرائع سے کئی روز پہلے نکال لائے تھے۔دونوں پارٹیوں نے 38سیٹوں پر اپنی دعویداری ٹھونکی اور دوسیٹیں گاندھی فیملی کے لئے چھوڑ نے کا اعلان کیا اور دوسیٹیں دوسری پارٹیوں کو دینے کا اعلان کیا اور اس طرح عظیم اتحا کے اس خوا ب کو چکنا چور کردیا جو بنگلور میں کمار سوامی کی حلف برداری کے اسٹیج پر ملک کی سکیولر آنکھوں نے دیکھا تھا۔
اکھیلیش او رمایاوتی کے چہروں پر پریس کانفرنس کے دوران بہت زیادہ خود اعتمادی دکھائی پڑی ‘ لیکن بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ انسان کی خود اعتمادی نہیں بلکہ خوش فہمی ہوتی ہے جس کے نتائج بعد میں دوسرے نکلتے ہیں اور ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ کانگریس سے الگ رہ کر الیکشن لڑنے کی جو غلطی سماج وادی پارٹی او ربہوجن سماا پارٹی کے لیڈران کررہے ہیں اس کے منفی اثرات وہ انتخابات کے نتائج آنے کے بعد برسوں تک محسوس کرتے رہیں گے۔
ایس پی او ربی ایس پی کے اتحاد کو دیکھ کر تو یہی لگاکہ سارے متوقع حلیفوں کو کنارے لگاکر صرف دوہاتھوں کی پتوار سے انہو ں نے ناؤ کو پار لگانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے ان کی ناؤ تو پا رلگ سکتی ہے ‘ لیکن بی جے پی کے سفینے کو انہوں نے غرق کرنے کا جو خواب دیکھا ہے اس وہ یقینی ہوتا نہیں دیکھائی دے رہا ہے اور بی جے پی اپنے ووٹ کے تناسب سے آدھے سے زیادہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
مگر پھلپور‘ گورکھپور‘ اور کیرانہ کی سیٹیں اپنے دم پر جیتنے کی وجہہ سے ایس پی او ربی ایس پی کو یقین ہوگیا ہے کہ پورے یوپی میں ایسے ہی نتائج حاصل کرسکیں گے۔ دوسری بات ان کو یہ لگی کہ کانگریس کے ساتھ لینے میں نقصان یہ ہوتا ہے کہ کانگریس کا ووڈ ان دونوں پارٹیوں کو ٹرانسفر ہونے کے بجائے بی جے پی کو منتقل ہوجاتا ہے ۔
ان کااشارہ اعلی ذات کے کانگریسیوں کی طرف تھا کہ جو سکیولر اتحاد میں شامل پسماندہ ات اور دلت امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے بجائے اپنی ہی پارٹی کے بدترین مخالفین کوووٹ دینے میں بھلائی سمجھتے ہیں۔بہرکیف اس قسم کے حساب کتاب سے ہم تو واقف نہیں ہیں
اس لئے اس کو غلط یا صحیح کہنا ہمارے بس کی بات نہیں البتہ ہم اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اگر 80سیٹوں پر کانگریس اپنے امیدوار اتارے گی تو ان میں سے ایسے بہت سے امیدوار ہوں گے جو الیکشن تو نہیں جیت سکیں گے مگر ایس پی او ربی ایس پی کے امیدواروں کا کھیل ضرور خراب کردیں گے تو
اس صورت میں بھی بی جے پی کو ہی فائدہ پہنچے گا؟۔
بلکہ ہم کو لگتا ہے کہ 80سیٹو ں پر کانگریس کے لڑنے کی وجہہ سے جتنا نقصان ہوگا اتنا نقصان چند سیٹیں کانگریس کو دین سے نہیں ہوتا۔
ہم کو ایسا لگ رہا ہے کہ مایاوتی کی ضد اس سلسلے میں زیادہ کارفرما ہے کیونکہ اکھیلیش تو راہول گاندھی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر گھوم رہے ہیں ۔
انہو ں نے راہول کو الگ کرنے کا فیصلہ مایاوتی کے دباؤ میں ہی لیاہوگا۔ اکھیلیش کی بھی مجبوری یہ ہے کہ اکیلے انتخابات کے میدان میں اترنے کی ہمت نہیں کرسکتے کیونکہ اس حالت میں ان کو سات سے اٹھ سیٹوں سے زیادہ ملنے کی امید نہیں۔
صرف کانگریس کو ہی پارٹنر بنانے سے بھی کام نہیں چلے گا۔ اس لئے انہوں نے مایاوتی کی شرطوں کو تسلیم کرنے میں ہی عافیت جانی ۔
ویسے ایک قابل غور بات یہ ہے کہ جب اکھیلیش سے پوچھا گیا کہ وہ وزیراعظم کے لئے کس کانام پیش کریں گے تو انہو ں نے بہت چالاکی بھرا جواب دیتے ہوئے کہاکہ آپ کومعلوم ہے کہ میں کس کانام پیش کروں گا ‘ کیونکہ میں تو چاہوں گا کہ وزیراعظم کا ہو۔
اس بند جواب کے پیکٹ میں راہول کانام بھی نکل سکتا ہے۔ بہرحال اب تو فیصلہ ہوگیا ‘ لیکن ہمیںیقین ہے کہ ابھی اس فارمولہ میں کچھ ردوبدل ضرور ہوں گے اور دونو ں پارٹیاں ہوش کے ناخن لیں گے اور اس بات کو سمجھیں گی کہ خود اعتمادی اور خوش فہمی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
دونوں پارٹیاں اگر واقعی الیکشن کو بھر پور پیمانے پر جیتنا چاہتی ہیں تو سب کر ملکر چلیں کیونکہ سکیولر عوام کی خواہش یہی ہے کہ سب سکیولر پارٹیاں ایک ہوکر میدان میں اتریں۔