اگنی پتھ ملک کی سلامتی کے مفاد میں نہیں

   

پی چدمبرم

سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس

پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں سارے امریکہ میں ایک پوسٹر منظر عام پر آیا اور کافی مقبول بھی ہوا۔ پوسٹر پر کچھ یوں لکھا تھا: ’’میں آپ کو چاہتا ہوں، امریکی فوج کیلئے سر پر ہیٹ والے شخص کو محبت سے انکل سام کہا جاتا تھا، وہ تصویر بھی کافی مقبول ہوئی، حکومت ہند بھی دفاعی فورسیس میں سپاہیوں کی بھرتی سے متعلق اپنی اسکیم اگنی پتھ کی تشہیر کیلئے اسی طرح کا پوسٹر استعمال کرسکتی ہے لیکن چھوٹے پرنٹ میں ایک سطر شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ برائے ٹیلر، ماہی گیر یا حجام بننے کیلئے؟‘‘
حکومت کی شروع کردہ اسکیم کو اگنی پتھ کا نام دیا گیا جو سادہ اسکیم ہے، حقیقت میں بہت ہی آسان ہے۔ اگنی پتھ بھرتی اسکیم کے تحت فوج کے تینوں شعبوں میں ہر سال 46,000 سپاہیوں کی بھرتی عمل میں آئے گی۔ انہیں 6 ماہ کی تربیت دی جائے گی اور 42 ماہ تک تعینات کیا جائے گا۔ 48 مہینوں کے اختتام پر ان میں سے صرف ایک چوتھائی یعنی 25% کو مزید 11 تا 13 سال خدمات پر برقرار رکھا جائے گا اور مابقی (تقریباً 34500) کو 11,67,000 روپئے معاوضہ ادا کرتے ہوئے خدمات سے سبکدوش کردیا جائے گا۔ یہ ایسی سرویس ہے جس میں ملازمت کی کوئی طمانیت یا گیارنٹی نہیں، کوئی وظیفہ کوئی گریجویٹی بھی نہیں، نہ ہی طبی یا دیگر فوائد خدمات سے نکالے جانے والے اگنی ویروں کو حاصل ہوں گے۔
جہاں تک اگنی پتھ اسکیم کا سوال ہے، اس اسکیم کے جو منفی نکات ہیں، وہ بالکل واضح ہیں۔ یہ ایک منصفانہ مفروضہ ہے کہ اسکیم کے خیال کو اوپر سے نافذ کیا گیا یعنی کسی خاص مقصد کے تحت یہ اسکیم شروع کی گئی۔ ویسے بھی آپ سب جانتے ہیں کہ حکومت نے سال 2014ء سے کس انداز میں کام کیا ہے، اس معاملے میں بھی اسی انداز کو اپنایا، اس سلسلے میں ہم ماضی کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں جس میں نوٹ بندی، رافیل دفاعی معاملت، قانون حصول اراضیات (ایل اے آر آر ایکٹ) میں ترامیم اور تین زرعی قوانین شامل ہیں۔ بہرحال مرکزی حکومت نے بڑے فخریہ انداز میں اگنی پتھ بھرتی اسکیم کا اعلان کیا اور پیش قیاسی کے عین مطابق زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ زیادہ تر ان نوجوانوں نے احتجاج کیا جنہوں نے دفاعی فورسیس میں باقاعدہ بھرتی کیلئے تربیت حاصل کی تھی اور خود کو تیار کیا تھا۔ انہیں امید تھی کہ کورونا وائرس کی عالمی وباء کے باعث فوج میں بھرتیوں کیلئے ملتوی کردہ عمل دوبارہ شروع ہوگا، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ حکومت ایک نئی اگنی پتھ اسکیم لے کر سامنے آئی۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ جن نوجوانوں نے اپنے آپ کو فوج میں بھرتی کیلئے تیار کر رکھا تھا، وہ یہ دیکھ کر بھی مایوس ہوگئے کہ اگنی پتھ میں بھرتی کیلئے اعظم ترین عمر 21 سال مقرر کی گئی بلکہ وہ 21سال عمر کی حد پار کرچکے ہیں۔ احتجاجی مظاہرہ کے ایک دن بعد حکومت نے برائے نام تبدیلیاں کرنے کا اعلان کیا اور بڑی بے شرمی سے ان تبدیلیوں کو منصوبہ بند کہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے جو تبدیلیاں کی ہیں، وہ اگنی پتھ پر کئے گئے بنیادی اغراض کو ختم نہ کرسکی۔ اگنی پتھ بھرتی اسکیم پر جو اعتراضات کئے ہیں، ان میں سب سے پہلے اعتراض تو اسکیم متعارف کروائے جانے کے وقت کے بارے میں ہے۔ یہ اسکیم ایک ایسے متعارف کروائی گئی ہے جب ساری سرحد پر سکیورٹی صورتحال انتہائی غیریقینی دکھائی دیتی ہے اور چین و پاکستان کی جانب سے دراندازی و مداخلت ایسا لگتا ہے کہ ختم ہونے والی نہیں ہے۔ اس ضمن میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہر کسی کو اپنے گھر پر چھت اس وقت ہی ڈال دینا چاہئے جب سورج چمکتا رہے، اس وقت نہیں جب بارش کا سلسلہ شروع ہوجائے۔ دوسرا اعتراض جو اگنی پتھ جیسی اسکیم پر کیا گیا، وہ یہ ہے کہ اگنی ویروں کی تربیت ناقص ہوگی اور انہیں فرنٹ لائنس پر تعینات نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایڈمیرل ارون پرکاش نے بطور خاص نشاندہی کی کہ بھرتی ہونے والے عام فوجی کو 5 تا 6 سال تک تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بحریہ اور فضائیہ تیزی سے ٹیکنالوجی اپناتے جارہے ہیں اور 6 ماہ میں کوئی ملاح یا ایرمین تربیت حاصل نہیں کرسکتا۔ لیفٹننٹ پی آڑ شنکر جو ڈائریکٹر جنرل آف آرٹیلری کی حیثیت سے وظیفہ حسن خدمت پرسبکدوش ہوئے ہیں ۔ اعداد و شمار سے پرُاپنے ایک مضمون میں مدلل دلائل سے ثابت کیا ہے کہ جب اگنی پتھ اسکیم کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے گا تو ہندوستان کے پاس ایک ایسی فوج ہوگی جو برہموس، پناگا یاوجرا جیسے ہتھیاروں کے انتظام کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوگی یا Gunner یا پھر ZIC کے قابل نہیں ہوں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ لیفٹننٹ جنرل پی آر شنکر جیسے ریٹائرڈ ڈائریکٹر جنرل آف آر ٹیلری اسی طرح کی فوج (اگنی پتھ اسکیم کے تحت بھرتی کئے جانے والی فورسیس) کو کنڈر گارٹن آرمی کا نام دیتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگنی پتھ اسکیم ہماری فوج کے اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے، ایسے ہی خیالات کا اظہار کئی ایک ریٹائرڈ فوجی عہدیداروں نے بھی کیا ہے۔ اب ہم تیسرے اعتراض کی بات کرتے ہیں، کئی ایک ممتاز و معزز دفاعی اعلیٰ عہدیداروں نے اس نکتہ کی نشاندہی کی ہے کہ لڑنے والے سپاہی کو اپنی اکائی یا یونٹ پر فخر کرنا چاہئے اور خطرات کا سامنا کرنے کیلئے رہنا چاہئے۔ ساتھ ہی بحرانی حالات میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا اہل ہونا چاہئے لیکن انسانی وسائل کی کوئی کتاب یہ ہرگز نہیں سکھاتی کہ 6 ماہ کی تربیت میں ایسی خوبیاں اور صلاحیتیں سمیٹ لی جاسکتی ہیں۔ خود کو اس قسم کی صلاحیتوں و قابلیتوں سے لیس کیا جاسکتا ہے، ہمیں یہ بھی نہیں فراموش کرنا چاہئے کہ ایک پولیس کانسٹبل کی تربیت میں کافی عرصہ درکار ہوتا ہے۔ چوتھی بات یا اعتراض یہ ہے کہ دفاعی فورس خاص طور پر فوج میں ایک روایت اور اخلاقیات ہیں۔ ایک فوجی کو اپنے ملک میں اپنے ساتھی فوجیوں کیلئے مرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ ریجمنٹ کا نظام قدیم ہوسکتا ہے لیکن اسی نظام نے ہندوستانی فوج کو دنیا کی بہتر لڑاکا افواج کی صف میں شامل کیا ہے۔ ڈیوٹی کے چار سال کے دورے کے دوران اگنی ویر جانتے ہیں کہ چار سال کی مدت کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ان میں سے 75% کو نکالا جائے گا۔ حد تو یہ ہے کہ انہیں سابق فوجیوں کا درجہ بھی نہیں دیا جائے گا، وہ پینشن اور سابق فوجیوں کو ملنے والی دیگر مراعات سے بھی محروم رہیں گے۔ ایک طرح سے وہ مالی طور پر غیرمحفوظ رہیں گے، اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا چار سال کے دوران ایسے فوجیوں (اگنی ویر) کے درمیان دوستی یا دشمنی ہوگی؟ آپ ایسے سپاہیوں سے یہ توقع کیسے کرسکتے ہیں کہ اگر ضرورت پڑے تو وہ سب سے بڑی قربانی دیں گے؟ پانچویں بات یا اعتراض یہ ہے کہ صرف اور صرف مالی فوائد کی خاطر کارکردگی کے معیار اور تاثر کو قربان کرنے کے نتائج کا تصور کریں۔ پینشن کا بڑھتا ہوا بل درحقیقت ایک مسئلہ ہے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ متبادل نمونوں کی جانچ کی گئی ہو۔ یہ دلیل کہ اگنی پتھ ماڈل کو اسرائیل میں آزمایا گیا ہے، اس کا تجربہ کیا گیا ہے۔ سمجھنے آنے والی بات نہیں، اس لئے کہ ہندوستان کی بہ نسبت اسرائیل کی آبادی بہت بہت ہی کم ہے۔ عملی طور پر وہاں کوئی بیروزگاری نہیں ہے اور نوجوانوں کیلئے اُس ملک میں فوجی خدمات کو لازمی قرار دیا گیا۔ اگنی پتھ کو پائیلٹ پراجیکٹ کے طور پر کیوں متعارف نہیں کروایا گیا اور اسے فوج کے تینوں شعبوں میں بھرتی کا ایک عالمی اور واحد طریقہ بنانے سے پہلے اس کی آزمائش کیوں نہیں کی گئی؟ اب فوج کے نائب سربراہ یا وائس چیف آف دی آرمی جنرل راجو نے کہا ہے کہ اگنی پتھ ایک پائلٹ اسکیم ہے جس میں چار پانچ سال بعد تبدیلی متعارف کروائی جائے گی۔ حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی خود ساختہ تبدیلیاں یا ترامیم اور رعایتیں اس بنیادی سوال کا جواب نہیں دیتی کہ کیا غیرتربیت یافتہ، ناقص حوصلہ افزائی اور بڑے پیمانے پر کنٹراکٹ یافتہ دفاعی دستے (اگنی ویر) ملک کی سلامتی کو سنگین طور پر متاثر نہیں کریں گے؟ CAPFs دفاعی اداروں اور CPSUs میں خدمات ختم کرچکے اگنی ویروں کیلئے 10% تحفظات کوئی جواب نہیں ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ری سیٹلمنٹ (جس کا حوالہ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ نے اپنی 21 جون 2022ء کی اشاعت میں دیا ہے) کے مطابق سابق فوجیوں کیلئے گروپ سی پوسٹوں میں 10 تا 14.5% اور گروپ ڈی پوسٹوں میں 20 تا 24.5% فیصد تحفظات کے برخلاف ملازمت کا حقیقی فیصد گروپ سی پوسٹوں میں 1.29% (یا اس سے کم) اور گروپ ڈی پوسٹوں میں 2.66 (یا اس سے کم) ہے۔