نئی دہلی۔ مذکورہ سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز یوپی منسٹر کے اس مبینہ بیان کو نامنظور کیاجس میں انہوں نے کہاتھا کہ”سپریم کورٹ ہمارا ہے“ اور یہ بیان انہوں نے بابری مسجد رام جنم بھومی کی2.77ایکڑ متنازعہ اراضی پر مالکانہ حق پر چل رہے مقدمہ کے پس منظر میں یہ بات کہی تھی‘
جس پر مسلم فریقیں کی جانب سے شکایت کی گئی تھی کہ معاملے کا رخ موڑنے کے لئے موافق ماحول بنایاجارہا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کی زیرقیادت بنچ جس میں جسٹس ای ساے بابڈو‘ ڈی وائی چندرچوڑ‘
اشوک بھوشن اور ایس عبدالنظیر بھی شامل ہیں کے روبرور سلسلہ وار 22ویں روز سنوائی شروع کرتے ہوئے سینئر وکیل راجیودھون‘ جو مسلم فریقین کی نمائندگی کررہے تھے نے کہاکہ ”ایک روز قبل (چہارشنبہ) کے روز میری کلرک کو سپریم کورٹ کے احاطے میں مشکلات او ربدسلوکی کاسامنا کرنا پڑا کیونکہ میں مسلم فریقین کی جانب سے پیش ہورہاہوں۔
مجھے اس سے کافی تکلیف ہوئی ہے۔ وہاں پر ایک منسٹر ہیں جنھوں نے کہاکہ ”جگہ ہماری ہے‘ مندر ہمارا ہے او رسپریم کورٹ بھی ہمارا ہے“۔
میں کوئی جوابی پٹیشن داخل نہیں کررہاہوں۔رام للا کی مورتی کے خلاف عدالت میں پیش ہونے پر سابق میں دھون کو ایک 88سالہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم نے ”بدعا“ دی تھی۔
انہو ں نے مزیدکہاکہ ”افسردگی کے ساتھ ایک شخص کو بحث کے لئے یہ ماحول نہیں ہے۔حالانکہ میں واضح کررہاہوں کہ اس عدالت میں دوسری طرف سے میں کوئی شکایت نہیں کررہاہوں“۔
سی جے ائی گوگوئی نے ججوں سے رابطہ کیااو رکہاکہ”یہ عمل فرسود ہے۔ ایسا اس ملک میں نہیں ہونا چاہئے۔
تمام قسم کے دباؤ سے بالاتر ہوکر دونوں فریق اپنی بحث کو یہاں پر پیش کرسکتے ہیں“
۔مذکورہ بنچ نے دھون سے استفسار کیاکہ آیاانہیں سکیورٹی کی ضرورت ہے‘ مگر وکیل نے انکار کردیا۔ دھون نے مذکورہ عدالت میں جس کا ذکر نہیں کیا وہ یوپی کے منسٹر مکت بہاری ورما کی جانب سے جاری کردہ وضاحت تھی‘
جنھوں نے کہاتھا کہ انہوں نے جو بھی تبصرہ کیاوہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ ہندوستان کی عوام ہے اور جو بھی فیصلہ ائے گا وہ قانون کے مطابق ائے گا۔ٹی او ائی نے جب دھون کے کلرک سے رابطہ کیا‘ جس نے کہاکہ دو نوجوان کلرک جس کے متعلق وہ سمجھتا ہے کہ عدالت میں وہ نئے تھے‘
نے چہارشنبہ کی شب سپریم کورٹ کے کوارڈیڈار میں ملے۔ انہوں نے کہاکہ ”انہوں نے مجھ سے کہاکہ یہ غلط ہے کہ میرے باس مسلم فریقین کی جانب سے ہندوؤں کے خلاف پیش ہوئے ہیں۔ میں نے انہیں منھ توڑ جواب دیا جس کے بعد وہ بھاگ گئے“