ایک بڑھیا جو جوانوں کو کھانا کھلارہی ہے

   

محمد مصطفی علی سروری

تاملناڈو کے دارالحکومت چینائی سے 530 کلو میٹر دور وادی ویلم پلائم نام کے گائوں میں 80 سال کی ایک ضعیف خاتون ہر روز صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے اپنے بستر سے اٹھ کر کام کاج میں مشغول ہوجاتی ہے۔ حالانکہ اس کے گھر میں بہت سارے لوگ اور پوترا پوتری بھی موجود ہیں جو اس خاتون کو صبح اٹھ کر کام کرنے سے منع کرتے ہیں لیکن 80 برس کی یہ خاتون اپنے گھر والوں کے مشورہ کو نظر انداز کردیتی ہے اور کہتی ہے کہ میں کام کرتی رہتی ہوں اس لیے صحت مند ہوں۔
قارئین !تاملناڈو کے گائوں کی اس 80 سالہ بزرگ خاتون کے متعلق انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے 28 اگست 2019ء کو ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی۔ اس خاتون کا نام کے کملاتھل ہے اور ہر روز بلاناغہ یہ بزرگ خاتون ضرورت مند لوگوں کے لیے رعایتی قیمت پر ناشتہ بناکر فراہم کرتی ہے۔ جی ہاں کڑی محنت اور مشقت کر کے اپنے ہی ہاتھوں سے ناشتہ میں کملاتھل غریب لوگوں کو اِڈلی بناکر فراہم کرتی ہے اور ایک اِڈلی کے لیے صرف ایک روپیہ لیتی ہے۔ جی ہاں ایک روپئے میں اِڈلی فروخت کرنے والی یہ 80 سالہ خاتون اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کو بتلاتی ہے کہ میں روزانہ تقریباً ایک ہزار اڈلیاں فروخت کرتی ہوں اور اس خاتون کے ہاں جو برتن اِڈلی بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس میں ایک وقت میں 37 اڈلیاں بنتی ہیں اور اس خاتون کو روزانہ ایک ہزار اِڈلی بنانے کے لیے 25 تا 30 مرتبہ برتن چولہے پر چڑھانا پڑتا ہے۔
کملاتھل روزانہ صبح اٹھ کر پہلے تو نہادھوکر پوجا کرتی ہے اور پھر اپنے بچے کو ساتھ لے کر بازار سے تازہ ترکاریاں لاتی ہیں۔ پتھر کے سل بتہ پر خود بیٹھ کر تازہ کھوپرہ پیس کر اس میں نمک اور دیگر مصالحہ ملاکر چٹنی بناتی ہے۔ اس کے بعد اِڈلی کے ساتھ سانبر بنانے کے لیے ترکاریاں کاٹ کر انہیں خود ایک برتن میں ڈال کر لکڑیوں کے چولہے پر پکانے کے لیے چڑھاتی ہے۔
اِڈلی بنانے کے لیے ایک رات پہلے ہی اِڈلی کا لیپ برتن میں بھگاکر رکھ دیتی ہے۔ کملاتھل نام کی اس بزرگ خاتون کی کوئی دوکان نہیں ہے۔ ہاں وہ اپنے ہاتھوں سے خود اِڈلی ، سانبر بناکر اپنے گھر سے ہی ضرورت مند اور غریبوں کو ایک روپئے میں ایک اِڈلی بیچ رہی ہے۔ قارئین سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے اس کڑی محنت اور بھاگ دوڑ کے بعد اس خاتون کو ایک دن میں صرف 200 روپیوں کی ہی کمائی ہو رہی ہے۔
صبح 8 بجے اخباری نمائندہ کملاتھل کے گھر پر پہنچا تو وہ یہ دیکھ کر حیران تھا کہ لوگ اس خاتون کے گھر کے باہر قطار میں اپنی باری کے منتظر تھے۔ جہاں ایک روپئے میں انہیں تازہ اور لذیذ ہاتھ سے بنائی ہوئی اِڈلی اور سانبر مل رہا تھا ۔ اس وقت بھی بزرگ خاتون اپنے ہاتھ سے سانبر کی بکیٹ لیے گھوم گھوم کر ہر ایک کو درکار سانبر ڈالتی جارہی تھی اور جو اِڈلی مانگ رہا تھااس کو اِڈلی دے رہی تھی۔ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ اخبار سے بات کرتے ہوئے کملاتھل نے بتلایا کہ میں نے 30 سال پہلے اِڈلی بناکر بیچنا شروع کیا تھا۔ میرا تعلق کسان گھرانہ سے ہے۔ میرے گھر والے دن کے وقت کھیتوں میں کام کرتے تھے اور میں گھر پر اکیلے بور ہوجاتی تھی۔ تب میں نے اِڈلی بناکر مقامی لوگوں کو کھلانے کے بارے میں سونچا۔ آج میرے ہاں مزدور طبقہ جو یومیہ اُجرت پر کام کرتا ہے بڑی تعداد میں آکر اِڈلی کھاکر جاتا ہے۔ محنت مزدوری کرنے والوں کے لیے ایک پلیٹ اِڈلی بھی باہر کھانا کافی مہنگا سودا ہے کیونکہ انہیں 15تا 20 روپئے ایک پلیٹ اِڈلی کے لیے دینے پڑتے ہیں۔
کملا تھل نے بتلایا کہ اس کی پرورش ایک ایسے گھر میں ہوئی جہاں پتھر کے سل بتے پر مصالحے پیسے جاتے تھے۔ آج بھی یہ بزرگ خاتون پتھر کے سل بتے پر مصالحے اپنے ہاتھ سے پیسنے کا کام کرتی ہے۔ اس نے اخباری نمائندے کو بتلایا کہ میں چونکہ ایک مشترکہ خاندان میں پلی بڑھی تو بہت سارے لوگوں کے لیے پکانا میرے لیے مسئلہ نہیں ہے۔ میں سارا سامان ایک دن پہلے ہی صاف کر کے اور دھوکر پیس لیتی ہوں۔ اس خاتون کے مطابق 6 کلو چاول اور اڑد کی دال پیسنے کے لیے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں تب ان کو رات بھر بھیگنے کے لیے رکھ دیتی ہیں۔ صبح تک خمیر بن کر تیار ہوجاتا ہے اور سانبر تو روز صبح میں ہی ایک نئی ترکاری کے ساتھ بنالیتی ہیں۔ صبح سے لے کر دو پہر تک تقریباً ایک ہزار اِڈلی بیچنے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
کملا تھل نے مزید بتلایا کہ 10 سال پہلے تک بھی اس کے ہاں فی اِڈلی آٹھ آنے کے حساب سے فروخت ہوتی تھی۔ چند برس ہوئے جب ان اِڈلیوں کی قیمت ایک روپیہ کردی گئی۔ 80 برس کی عمر میں بھی اپنے گھر اور علاقے کے لوگوں کو کم قیمت میں معیاری ناشتہ فراہم کر کے خوشی محسوس کرنے والی خاتون کہتی ہے میرے علاقے میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور معاشی طور پر پسماندہ ہیں اور یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔ ان کے لیے دوسری جگہ ناشتہ کرنے کے لیے 15 سے 20 روپئے دے کر ایک پلیٹ اِڈلی کھانا بڑا مہنگا سودا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ کملاتھل کے گھر کی بنی اِڈلیاں کھاکر سکون سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں جس سے ان لوگوں کو بچت بھی ہوجاتی ہے۔
کملاتھل کے مطابق بعض لوگ ان کے پاس آکر کہتے ہیں کہ وہ اپنے ہاں اڈلیوں کی قیمت میں اضافہ کریں۔ ان کا جواب ہوتا ہے کہ میں کم قیمت پر لوگوں کو اس لیے کھلاتی ہوں کیونکہ وہ ضرورت مند اور بھوکے ہیں۔ صرف قریبی علاقے کے لوگ نہیں بلکہ دور دراز کے علاقوں سے بھی لوگ کملاتھل کے گھر آکر رعایتی قیمت پر ناشتہ کر کے جاتے ہیں۔ لوگوں کی فرمائش پر اب اس بزرگ خاتون نے میسوربھجیا بھی ڈھائی روپئے میں بناکر بیچنا شروع کیا ہے۔
کملاتھل کے ہاں ناشتہ کرنے والے ایک شخص کے مطابق اس کو یہاں آکر کھاتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماں کے ہاتھ کا بناہوا کھانا کھا رہا ہے۔
80 سال میں بھی کڑی محنت کر کے خوش رہنے والی اس خاتون کا کہنا ہے کہ مجھے لوگوں کے لیے کھانا بناتے ہوئے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اس لیے میں یہ کام بند نہیں کرسکتی ہوں۔
کملاتھل نے عمر کے اس حصے میں بھی اپنے کار خیر کو جاری رکھے ہوئے اور اخباری رپورٹ کے مطابق کملا تھل کا مستقبل قریب میں اپنے اس کار خیر کو روکنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ کیا ہم کملا تھل کی زندگی سے کچھ سبق نہیں سیکھ سکتے ہیں؟
دراصل ہم سیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں؟ ورنہ یہ دنیا کی خبریں اور بدلتے ہوئے حالات ہمیں کیا کچھ نہیں سکھاتے ہیں۔
نبی کریمؐ کی تعلیمات ہیں کہ تم خیر کے کاموں میں حصہ لو۔ مسلمانوں کو خیر امت بناکر ہی بھیجا گیا اور مسلمان یہ کہتے نہیں تھکتا کہ آج مسلمانوں کو دنیا میں ہر طرف سے پریشانیاں گھیرے ہوئے ہیں لیکن مسلمانوں کے لیے آج بھی راستے کھلے ہوئے ہیں۔ فلاحی کاموں اور سماجی خدمت سے کسی نے ہمیں نہیں روکا ہے۔ ان کاموں کے لیے ہمیں مذہب کو پیمانہ بھی نہیں بنانا ہے۔ کیونکہ ضرورت مند غریبوں اور مظلوموں کی مدد کرنے کی تعلیم دینے کے ساتھ مسلمانوں کو کہیں بھی اس بات کا پابند نہیں بناگیا کہ ہم صرف مسلمان ضرورت مند، مسلمان غریب اور صرف مسلم مظلوم کی ہی مدد کریں۔
صرف میڈیا میں بیانات دینے، اخبارات میں تصاویر شائع کرنے اور سوشیل میڈیا کے پوسٹوں سے دین اسلام کی صحیح تعلیمات برادران وطن تک پہنچنے والی نہیں او رہم مسلمانوں کا تو یہ عقیدہ ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ آخری نبی اور ختم الرسل ہیں۔ اب ہم مسلمانوں کی ہی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم دین کی سچی دعوت کو برادران وطن تک اس کی اصل روح کے ساتھ پہنچائیں۔ مجھے کسی اور پر انگلی نہیں اٹھانی ہے۔ مجھے اپنے دامن میں جھانک کر اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہوگا۔ کیا میں اپنی آنکھیں کھولنے کے لیے تیار ہوں۔ قبل اس کے کہ میری آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں۔ دعا کیجئے کہ میں مسلمان ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری کو پورا کرسکوں اور آپ کو کیا کرنا ہے ، میں کون بتانے والا ہوں؟ آپ مسلمان ہیں آپ خود جانتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے اور صراط مستقیم پر چلائے۔ آمین یارب العالمین۔
(کالم نگار، مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com