ایک دن اُجالا ہوگا

   

اسلم ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ، اس کے والدین نہایت ایماندار تھے ، انہوں نے ہمیشہ اسلم کو بھی یہی سبق دیا ، اسلم جب دس برس کا ہوا تو اچانک ایک حادثے میں اس کے والد وفات پاگئے ، گھر کی ساری جمع پونجی بھی ایک ہفتے میں ختم ہوگئی ،اسلم نے سوچا کہ وہ محنت مزدوری کر لے مگر اس کے والد کا خواب تھا کہ اسلم تعلیم حاصل کرے ، بس یہ سوچ کر اسلم نے ہمیشہ تعلیم جاری رکھنے کا عہد کیا ۔ والدہ اور اسلم کی محنت ، مشقت سے
گزربسر ہونے لگی اور ساتھ اسلم پڑھتا بھی رہا ، اسکول میں اساتذہ اسلم کے حالات سے بخوبی واقف تھے ، ان کے ساتھ اور محبت نے بھی اسلم کو تعلیم جاری رکھنے کا حوصلہ دیا ۔ آخر والدہ کی دعائیں اور اسلم کی محنت نے رنگ دکھایا اور اسلم نے اسکول کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کرلی ، اس کے اساتذہ بھی اس کی کامیابی پر بے خوش تھے ، اس کی زبردست کامیابی کے پیش نظر ، کئی بہترین کالجس سے اسے داخلہ کی پیشکش کی گئی ۔ اب وہ شہر کے بڑے کالج میں داخلہ لے سکتا تھا ، اسے بس تعلیم کی کوشش جاری رکھنا تھی ، فیس اور اخراجات کی فکر ، اس کی یہ دو بڑی مشکلیں اب ختم ہوچکی تھیں ۔ اسلم بے حد خوش تھا ، وہ سوچ رہا تھا ، چند سال پہلے میں پڑھائی ترک کررہا تھا کہ اسکول کی فیس ادا کرنا مشکل تھی لیکن آج محنت اور لگن نے اسے نہ صرف کامیاب کیا تھا بلکہ مزید تعلیم کیلئے راستہ بھی آسان ہوگیا تھا ۔ اس نے دل ہی دل میں عہد کیا ، ’’ جو پریشانی مجھے ہوئی تھی ، میری کوشش سے وہ آئندہ شہر کے کسی دوسرے بچے کے ساتھ پیش نہ آئے گی ۔ ‘‘ یہ کام تو بڑا مشکل تھا لیکن تعلیم کی شمع روشن کرنے کیلئے ایسے ہی ارادے کی ضرور ت ہے جس کو آج اسلم اپنے دل میں محسوس کررہا تھا ۔ اس نے اپنے اساتذہ سے بات کی ، ’’ سر : چند سال پہلے میں تعلیم ترک کرنے والا تھا ، لیکن آپ سب کے حوصلے اور مدد نے مجھے علم کے میدان میں کوشش جاری رکھنے کا حوصلہ دیا ، میں چاہتا ہوں کہ اب میں بھی سب کی مدد کروں ، لیکن مجھے اس سلسلے میں آپ کی رہنمائی چاہئے ’’ سر نے اسلم کے جذبے کی تعریف کی اور بولے ، ’’ بیٹا اگر ہر بچہ آپ جیسے جذبے کا مالک بن جائے تو جلد ہی ہر جانب علم کا اُجالا ہوجائے گا ، ہم سب مل کر اس وطن کے ہر بچے کو علم سے روشناس کروائیں گے ‘‘ ۔