ای وی ایم اور عوامی تحریک کا فیصلہ

   

ہندوستان میں کئی برسوں سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا مسئلہ چل رہا تھا ۔ اپوزیشن جماعتوں کو لگاتار شبہات ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میںالٹ پھیر کیا جاسکتا ہے اور برسر اقتدا راتحاد کی جانب سے یہ الٹ پھیر کیا بھی جاتا ہے ۔ تاہم گذشتہ دن ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے اپنے انتہائی اہم فیصلے میں یہ واضح کردیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو تبدیل نہیں کیا جائیگا اور نہ ہی انتخابات بیالٹ پیپر پر کروائے جائیں گے ۔ ملک میں جب کبھی اور جہاں کہیں انتخابات ہوتے ہیں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوںپر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور شبہات بھی ظاہر کئے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن سے بھی بارہا نمائندگیاں کی جاتی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے کئی بار واضح کیا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں کسی طرح کے الٹ پھیر کے امکانات نہیں ہیں او یہ پوری طرح سے محفوظ ہیں ۔ تاہم اپوزیشن جماعتیں الیکشن کمیشن کے اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئی ہیں۔ اب جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے بھی فیصلہ سنادیا گیا ہے تو یہ مسئلہ قانونی طور پر منطقی انجام کو پہونچا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوںاور خاص طور پر کانگریس کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے خلاف عوامی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ملک بھر میں احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے ۔ کانگریس کو امید ہے کہ انڈیا اتحاد میںشامل کچھ دوسری جماعتیں بھی اس احتجاج میںشامل ہونگی کیونکہ ان جماعتوں کی جانب سے بھی ایک سے زائد بار یہ شبہات ظاہر کئے گئے تھے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میںالٹ پھیر کیا جاتا ہے ۔ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھیلیش یادو بھی اس معاملے میں واضح موقف رکھتے ہیں۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں اترپردیش میں حالانکہ سماجوادی پارٹی کو ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ اس کامیابی کے بعد بھی اکھیلیش یادو نے ووٹنگ مشینوں کے استعمال کو ترک کرتے ہوئے بیالٹ پیپر پر انتخابات کروانے کی وکالت کی تھی ۔ اپوزیشن جماعتوں کی صفوںمیں اس تعلق سے جو شبہات پائے جاتے ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب عوامی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
حالانکہ ابھی اس عوامی تحریک کی تفصیلات کا تعین نہیں کیا گیا ہے اور سارے پروگرام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ تفصیلات کا تعین کرتے ہوئے قانونی پہلووں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔عوام میں رجوع ہوتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنا سیاسی جماعتوںکا حق ضرور ہے اور اس کی باریکیوں کو نظر میںرکھاجانا چاہئے ۔ انڈیا اتحاد کے ایک سینئر لیڈر شرد پوار نے مشورہ دیا ہے کہ اس مسئلہ پر آگے بڑھنے کیلئے قانونی ٹیمیں بھی تشکیل دی جانی چاہئیں۔ یہ ایک بہتر مشورہ ہے کیونکہ قانونی اورعدالتی کشاکش کا شکار ہوئے بغیراس معاملے میں پیشرفت کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے اس کے بعد کوئی اقدام ایسا نہیں ہونا چاہئے جس سے عدالت کی ناراضگی کا خطرہ ہو ۔ تاہم عوامی سطح پر تحریک چلاتے ہوئے ملک بھر میں رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے تاکہ حکومت کو اس تعلق سے کسی بھی فیصلے کیلئے مجبور کیا جاسکے ۔ شرد پوار کے مشورہ کے مطابق قانونی پہلووں کا جائزہ لینے ماہرین کی ٹیمیں تشکیل دی جانی چاہئیں۔ عوام میں شعور بیدار کرنے کیلئے مختلف پروگرامس منعقد کئے جاسکتے ہیں۔ ایک فیصلہ کرتے ہوئے عوام سے رجوع ہونا ہے تو پھر یہ فیصلہ بہت دوراندیشی اورر باریک بینی سے غور و خوض کے بعد کیا جانا چاہئے ۔ اس سارے معاملہ میں عوام کی شراکت داری اور شمولیت زیادہ اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے اور رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے حکومت سے باضابطہ رابطے ئے جاسکتے ہیں۔
جہاں تک انڈیا اتحاد کی جماعتوں کا سوال ہے تو اس معاملے میں کانگریس کو تنہا کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے تمام جماعتوں کی رائے حاصل کرنا چاہئے ۔ تمام جماعتوں کے ذمہ دار قائدین کے ساتھ تفصیلی مشاورت ہونی چاہئے ۔ ان کی رائے لی جانی چاہئے ۔ انہیں اعتماد میں لیا جانا چاہئے ۔ ان سے تجاویز اور مشورے حاصل کئے جانے چاہئیں اور پھر سب کی رضامندی کے ساتھ عوامی تحریک کے پروگرامس کو قطعیت دئے جانے کی ضرورت ہے ۔ جتنی زیادہ جماعتیں اس کا حصہ ہونگی اور جتنی زیادہ عوامی شراکت کو یقینی بناے جائیگا اتنا ہی اس مہم کے اثرات مرتب ہونے کی امید ضرور کی جاسکتی ہے ۔