اے ایم یو کے اقلیتی حیثیت کا مسئلہ کئی دہائیوں سے ایک طویل قانونی کشمکش میں پھنسا ہوا ہے۔
نئی دہلی۔ سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی متنازعہ اقلیتی حیثیت پر سماعت کرتے ہوئے کہاکہ محض حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کے انتظامیہ کے کچھ حصے کی دیکھ بھال بھی غیر اقلیتی عہدیداروں کے ذریعہ کی جاتی ہے تو اس سے اس کے اقلیتی کردار کو کمزور نہیں کیاجاسکتا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے ائی)کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات ججوں کی ائینی بنچ نے اس بات پر زوردیاکہ ائین کے ارٹیکل 30کہتا ہے کہ ہر اقلیت‘ چاہئے وہ مذہبی ہو یالسانی کو اپنے پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کاانتظام کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
اس حساس موضوع پر دوسرے دن بھی بحث کی سنوائی کرتے ہوئے بنچ نے کہاکہ ”محض حقیقت یہ ہے کہ جو ادارے میں اپنی خدمت کی وجہہ سے نمائندہ آواز رکھتے ہیں یا ادارے کے ساتھ ان کی وابستگی یا مشغولیت اس لحاظ سے ادارہ کے اقلیتی کردار کو کمزور نہیں کریں گے“۔
بنچ جس میں جسٹس سنجیو کھنہ‘ سوریا کانت‘ جے بی پردی والا‘ دیپانکر دتا‘ منوج مشرا اور ستیش چندرا شرما بھی شامل ہیں نے کہاکہ ”لیکن معاملہ اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا ہے کہ سارا انتظامیہ غیر اقلیتوں کے ہاتھوں میں ہو“۔
اے ایم یو کے اقلیتی حیثیت کا مسئلہ کئی دہائیوں سے ایک طویل قانونی کشمکش میں پھنسا ہوا ہے۔پانچ ججوں کی ایک ائینی بنچ نے 1967میں ایس عزیز باشاہ بمقابلہ یونین آف انڈیاکیس میں کہاتھا کہ چونکہ اے ایم یو ایک مرکزی یونیورسٹی تھی‘اس لیے اس کواقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جاسکتا“۔
تاہم1857میں قائم ہونے والے معروف ادارہ کو جب پارلیمنٹ میں 1981میں اے ایم یو (ترمیم) ایکٹ کو منظوری دی گئی تو اس کو اقلیتی موقف دوبارہ مل گیاتھا۔
مرکز میں زیر قیادت یو پی اے حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ مذکورہ یونیورسٹی نے بھی اس کے خلاف ایک علیحدہ درخواست دائر کی تھی۔
بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے 2016میں عدالت عظمیٰ سے کہاتھا کہ وہ سابق کی یوپی اے حکومت کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کو واپس لے لی گی۔
اسوقت کی اٹل بہاری واجپائی حکومت نے باشاہ کیس میں 1967کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیاتھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ایک مرکزی یونیورسٹی ہے جسے حکومت کی طرف سے فنڈدیاجاتا ہے۔