بابا گرونانک کی اِسلام اور مسلمانوں سے قربت

   

محمد ریاض احمد

سکھ مت کے بانی گرونانک دیوجی کی 550 یوم پیدائش ساری دنیا میں مقیم سکھوں نے بڑے عقیدت اور تزک و احتشام سے منائی۔ اس مرتبہ گرونانک کی یوم پیدائش تقاریب اس لحاظ سے بھی یادگار رہی کہ امن و محبت اور انسانیت نوازی کا پیغام دینے والے گرونانک جی کو جہاں ہندوستان میں زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا، وہیں سرحد پار یعنی پاکستانی صوبہ پنجاب میں ’’کرتار پور راہداری‘‘ کا افتتاح عمل میں آیا اور اس راہداری کو ہندوستان کے بشمول دنیا کے مختلف ملکوں میں مقیم سکھ زائرین کیلئے کھول دیا گیا۔ حکومت ِپاکستان نے گرونانک کے یوم پیدائش تقریب کا خاص طور پر اہتمام کرتے ہوئے سکھوں کے دل جیت لئے اور ہندوستان کو بھی مذاکرات بحال کرنے کا پیام دیا۔ سرحد کے اس پار ہندوستان میں بھی خصوصی تقاریب منعقد ہوئیں اور وزیراعظم نریندر مودی نے بطور خاص تقریب میں شریک ہوکر پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا۔ اس طرح ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں نے پاکستان کی جانب واقع گردوارہ دربار صاحب اور ہندوستانی پنجاب کے گرداس پور میں واقع ڈیرہ بابا نانک کو ایک راہداری کے ذریعہ جوڑنے کا کام انجام دیا۔ واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے جو گردوارہ دربار صاحب جو بابا گرونانک دیو کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔اس کی غیرمعمولی انداز میں تعمیر اور تزئین نو کی گئی ۔بہرحال یہاں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کرتارپور راہداری نے پھر ایک بار ہندوستان اور پاکستان کو امن مذاکرات بحال کرنے کا موقع عطا کیا کیا ہے جہاں تک بابا گرونانک دیو کے عقیدہ کا سوال ہے، وہ مسلمانوں سے بہت قریب رہے اور دین اسلام اور اولیاء اللہ سے ان کی قربت کو مثالی کہا جاسکتا ہے۔ بابا گرونانک نے دور دراز مقامات یا ملکوں کا سفر کرتے ہوئے ایک خدا کو ماننے کا اور کائنات کے ذرہ ذرہ کی تخلیق کرنے والے رب زوالجلال کا پیغام پہنچایا۔ بابا گرونانک کا خدا کے بارے میں یہی عقیدہ تھا کہ خدا ایک ہے جو اپنی ہر تخلیق میں جلوہ گر ہے اور خدا لازوال حقیقت ہے۔ بابا گرونانک نے ایک منفرد روحانی، سماجی اور معاشرتی نظام ترتیب دیا اور اس نظام کی بنیاد انسانیت، مساوات، بھائی چارگی، نیکی و بھلائی اور حسن اخلاق ہے۔ گرونانک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس وقت جبکہ ان کی عمر 30 سال ہوئی، یہ اعلان کیا کہ نہ کوئی ہندو ہے، نہ کوئی مسلمان بلکہ سب انسان ہیں، ایسے میں مجھے کس کے راستے پر چلنا چاہئے؟ مجھے خدا کے راستے پر چلنا چاہئے اور میں جس راستے پر چل رہا ہوں، وہ خدا کا راستہ ہے۔ گرونانک کی تعلیمات گروگرنتھ صاحب میں موجود ہیں۔ گرونانک دیو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ مسلمانوں سے بہت قربت رکھتے تھے اور مسلم بزرگوں کی صحبت میں رہا کرتے، یہ بزرگ گرونانک سے بڑی محبت و شفقت سے پیش آئے۔ ان مسلم بزرگوں نے گرونانک کو تعلیم بھی دی۔ دینی و دنیاوی علوم بھی سکھائے۔ ان میں حضرت سید حسن نامی درویش نمایاں ہیں۔ گرونانک دیوجی کے بارے میں جو مواد دستیاب ہے، اس میں لکھا ہے کہ آپ نے کئی ممالک کا سفر کیا، مکہ بھی گئے، علماء سے توحید وغیرہ کے مسائل پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ گرونانک دیو ایک سال تک مکہ مکرمہ میں رہے اور عراق کا سفر بھی کیا، خاص طور پر بغداد شریف میں 6 سال گذارے۔ یہاں تک کہ وہاں ایک اللہ کے ولی حضرت مرادؒ کے ہاتھ پر بیعت بھی کی۔ گرونانک دیو جی نے ایک خدا کا پیغام دیا ہے چنانچہ گرو گرنتھ صاحب راک رام کلی محلہ 5 صفحہ 1234 میں جو کلام ہے، اس کا ترجمہ اس طرح ہے۔
میرا مالک ایک ہے۔ ہاں ہاں بھائی وہ ایک ہے، وہی مارنے والا اور زندہ کرنے والا ہے، وہی دے کر خوش ہوتا ہے۔ وہی جس پر چاہتا ہے، اپنی فصلوں کی بارش کردیتا ہے۔
وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے، اس کے بغیر کوئی اور نہیں کرسکتا جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے، ہم وہی بیان کرتے ہیں، ہر چیز اس کی حمد بیان کررہی ہے۔
جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ گرونانک نے مسلم ملکوں کا سفر کیا ہے ، اس بارے میں آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ بغداد، افغانستان، (قندھار اور جلال آباد میں) پاکستان وغیرہ میں بابا گرونانک کی بے شمار یادگاریں ہیں۔ شہر حیدرآباد کی ایک معزز شخصیت اور سکھ دانشور نانک سنگھ نشتر نے جو اُردو کے ایک اچھے شاعر بھی ہیں، انہوں نے گرونانک دیو جی کے اسلام اور مسلمانوں سے تعلقات اور سکھ۔ مسلم دوستی سے متعلق اُردو میں 7 کتابیں بھی تحریر کی ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے سکھ ازم، سکھوں، سکھ ۔ مسلم تعلقات پر انگریزی میں 7 کتابیں تصنیف کی ہیں۔ بہرحال اُردو انگریزی اور دوسری زبانوں میں ان کی جملہ 20 کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ سردار نانک سنگھ نشتر نے بتایا کہ گرونانک دیوجی نے کم از کم 10 مسلم ملکوں کا سفر کیا۔ عراق کے دورہ کے موقع پر بغداد شریف میں وہاں کے حکمراں نے گرونانک کو عمامہ پیش کیا تھا۔ عام طور پر علماء کو عمامہ عطا کئے جاتے تھے۔ انہیں چغہ بھی عطا کیا گیا تھا جس پر کلمہ طیبہ درج ہے اور گرونانک کا وہ چغہ کرتارپور جانے کا جو راستہ ہے اور ہندوستانی علاقہ کے ڈیرہ صاحب میں محفوظ ہے۔ نانک سنگھ نشتر کے مطابق گرو گرنتھ صاحب میں 36 شخصیتوں کا کلام ہے جس میں 7 مسلم حضرات جن میں حضرت بابا شیخ فریدالدینؒ ، شکر گنج (جو گرونانک صاحب سے 250 سال پہلے گذر چکے تھے) تاہم گرونانک نے حضرت بابا فرید گنج شکر کے 11 ویں جانشین حضرت ابراہیمؒ سے وہ کلام حاصل کیا۔ حضرت ابراہیمؒ کو فرید ثانیؒ بھی کیا جاتا ہے۔ 100 سال بعد حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کا کلام گرو گرنتھ صاحب میں شامل کیا گیا۔ حضرت بابا فرید ؒکے علاوہ شیخ بھکن (وہ اُترپردیش کے رہنے والے تھے)، بھائی سنندنا (آپ ذات کے قصائی تھے) بھائی سنسدننا(یہ آپ کے ساتھی تھے اور رباب بچایا کرتے تھے) بھائی مردانا عمر بھر اُن کے ساتھ رہے، وہ عمر میں گرونانک صاحب سے 10 سال بڑے تھے، شیخ کبیر (وہ اُترپردیش کے کاشی سے تعلق رکھتے تھے، انہیں ہندوؤں نے بعد میں ’’کبیر داس‘‘ کا نام دیا) بھائی سننا اور بھائی بلونت (یہ دونوں کیرتن کرتے تھے)۔ بہرحال ان 7 مسلم بزرگوں کا کلام گرو گرنتھ صاحب میں موجود ہے۔ گروگرنتھ صاحب میں لفظ ’’اللہ‘‘ 37 بار آیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’رب‘‘ اور ’’مولا‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا۔ گرونانک دیو بچپن سے ہی ذات پات اُونچ نیچ کو نہیں مانتے تھے اور یہی کہتے کہ تمام انسان ایک ہی ’’اللہ‘‘ کی تخلیق ہیں اور تمام انسان ایک ہی ہیں۔ گرونانک ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے ’’میری ذات سچا نام‘‘ ہے، ’’سچا نام اللہ کا ہے‘‘۔ وہ خدا کو ایک مانتے اور اس کیلئے وہ ایک کا ہندسہ‘‘جیسے الفاظ استعمال کرتے یعنی اس کا مطلب ہم سب کا رب ایک ہی ہے۔
نانک سنگھ نشتر کے مطابق سنہری گردوارہ امرتسر کا سنگ بنیاد ایک اللہ کے ولی حضرت میاں میر صاحب نے رکھا۔ اس کے علاوہ ناندیڑ گردوارہ کی زمین بھی ایک مسلمان نے بطور عطیہ پیش کی۔سردار نانک سنگھ نشترؔ کو 31 اگست 2019ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی (بنگلہ دیش) میں’’بین مذاہب اتحاد کا سفیر‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے بہرحال گرونانک دیو کے ماننے والے سکھوں کے بارے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے گرو کی تعلیم پر سختی سے کاربند ہیں اور ان میں غیرمعمولی اتحاد و اتفاق پایا جاتا ہے۔ اپنے ساتھ کی جانے والی ہر ناانصافی اور حق تلفی کے خلاف اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت اور حکومتی ادارے یہاں تک کہ پولیس اور نفاذ قانون کی دوسری ایجنسیاں ان کی طرف نظر ِ بد ڈالنے سے بھی گھبراتی ہیں جبکہ ان کی آبادی ہندوستان میں مسلمانوں کی بہ نسبت کئی گنا کم ہے۔٭