بابری مسجد ’ ’ امن کی جیت، اِنصاف کی ہار‘‘

   

محمد نصیرالدین

مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر کی 1528 ء میں تعمیر کردہ ’’بابری مسجد‘‘ اب محض تاریخ کا ایک حصہ بن جائے گی۔ جہاں نمازوں کے بجائے اب پوجا پاٹ ہوگی، توحید کی صدائیں جہاں بند ہوجائیں گی اور ہمیشہ کے لئے مسلمان اس مسجد سے بے دخل ہوجائیں گے۔ یقینا مسلمانان ہند کے لئے یہ ایک صبر آزما امتحان ہے کہ دیکھتے دیکھتے نہ صرف وہ ایک عبادت گاہ سے محروم کردیئے گئے بلکہ انصاف کے رکھوالوں نے کھلی ناانصافی کرتے ہوئے مسجد کی پوری زمین کو دوسرے فریق کے حوالہ کردیا۔ سپریم کورٹ جسے ملک کے سب سے بڑے انصاف کے مندر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اُس نے نہ صرف عدل و انصاف سے کھلواڑ کیا بلکہ بے انصافی کا فیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی حیثیت اور احترام کو بھی داغدار کردیا، جہاں انصاف ہوتا ہو وہیں انصاف کو شکست ہوگئی اور انصاف ہار گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمان کیوں ایک عبادت گاہ سے محروم کردیئے گئے؟ اس کا سیدھا سادھا اور آسان جواب یہی ہے کہ ’’جو قومیں انتشار و افتراق میں مبتلا ہوتی ہیں وہ تباہی، بربادی اور شکست خوردگی کا شکار ہوتی ہیں‘‘۔ چنانچہ 1986 ء میں جب فیض آباد کی عدالت نے ایک فریق کو پوجا پاٹ کی اجازت دی اُس وقت ملک بھر کے علماء، قائدین اور زعماء نے مل کر ’’بابری مسجد کوآرڈی نیشن کمیٹی‘‘ قائم کی تاکہ بابری مسجد مقدمہ کی مؤثر پیروی کی جاسکے اور حکومت پر عوامی دباؤ بنایا جاسکے تاکہ وہ بدنیتی کیساتھ بابری مسجد کے متعلق کوئی یکطرفہ فیصلہ نہ کرسکے۔ لیکن افسوس کہ چند اونچے قد کے قائدین نے اس کمیٹی سے علیحدہ ہوکر اپنی ایک ’’ایکشن کمیٹی‘‘ قائم کردی۔ یہی لمحہ وہ نکتۂ آغاز ثابت ہوا جب ملت بے حیثیتی کا شکار ہوگئی اور حکومت اور دوسرے فریق کو موقع مل گیا کہ وہ اس انتشار کا بھرپور فائدہ اُٹھائیں اور بابری مسجد کو چھین لیں چنانچہ انتشار و افتراق کا سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ چند نام نہاد علماء نے مسجد کی منتقلی کے فارمولے کی تائید کرنی شروع کردی تو بعض اقتدارِ وقت کے حواریوں نے بابری مسجد کو اکثریتی فرقہ کے حوالے کرنے کی وکالت کردی۔ ظاہر ہے جو قوم و ملت ایک مقصد اور ایک نکتہ پر متحد نہیں ہوسکتی اسے ذلت و رسوائی کے علاوہ کیا حاصل ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف سپریم کورٹ کی دستوری بنچ کے فیصلہ کی خامیوں، کوتاہیوں اور جانبداری پر ملک بھر کے ماہرین قانون اور انصاف پسند دانشور اظہار خیال کررہے ہیں اور اس فیصلہ کو حق و انصاف کے خلاف قرار دے رہے ہیں، ان تبصروں اور آراء کے برخلاف اس حقیقت کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت یکایک برسر اقتدار نہیں آئی ہے بلکہ ایک طویل صبر آزما جدوجہد کے بعد اقتدار ان کے حصہ میں آیا ہے اور سوء اتفاق یہ کہ اس گروہ کو بھرپور اکثریت بھی حاصل ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی برسر اقتدار جماعت نے تمام دستوری اداروں پر اپنے من پسند لوگوں کو فائز کردیا جن کا طرّہ امتیاز یہ ہے کہ دستور، حق، انصاف اور جمہوریت ان کے لئے بے معنی ہے وہ وہی کرتے ہیں جس کا اشارہ سنچالک دیتے ہیں۔ یہ وہ گروہ ہے جن کا دیرینہ خواب ’’ہندو راشٹر‘‘ ہے جس کے لئے اُنھوں نے عظیم جدوجہد اور قربانیاں دی ہیں۔ اب جب اقتدار ان کے ہاتھ لگا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کی تصویر کو بدل دیں، اس ملک کی تقدیر اور مستقبل کو ہندو راشٹر کے سایہ میں ڈھکیل دیں۔ دفعہ 370 کی تنسیخ کا فیصلہ، طلاق ثلاثہ پر قانون سازی اور اب دستوری بنچ کی آڑ میں رام مندر کی تعمیر ان کی کامیاب حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ، تبدیلیٔ مذہب پر پابندی اور تحفظات کی برخاستگی ان کے آئندہ ایجنڈہ کا حصہ ہے۔ بابری مسجد سے متعلق فیصلہ بظاہر سپریم کورٹ کی دستوری بنچ کا متفقہ فیصلہ ہے لیکن شائد ہی کوئی اس سے انکار کرسکے کہ وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے دفتر میں ہوئی منصوبہ بندی کو عدالت عظمیٰ نے فیصلہ کا لیبل لگادیا۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر میں 50 سے زائد مسلم ممالک پائے جاتے ہیں لیکن دینی حمیت اور اُخوت مسلم کے نام پر کسی نے بھی لب کشائی ضروری نہیں سمجھی بلکہ بعض ممالک کی جانب سے ملت اسلامیہ اور اہل کشمیر پر ظلم و ستم کی تاریخ رقم کرنے والوں کو اعزاز بھی دیا گیا۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ آج انتہائی ذلت و پستی کا شکار ہے اور حق و باطل کی تمیز سے بے بہرہ ہوچکی ہے۔ اب اس بات کا جائزہ و احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’قافلہ کیوں لُٹا‘‘ مسجد کی سودے بازی کے کون ذمہ دار ہیں، اقتدار کی نظر عنایت کے کون کون طلبگار ہیں، آخرت کے بدلے کس نے دنیاوی چمک دمک کو اپنا مطمع نظر بنالیا ہے!! ملت اسلامیہ کو واضح طور پر اس بات کو سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ مذکورہ صفات سے متصف افراد ملت اسلامیہ کی قیادت و سیاست کیلئے ہرگز موزوں نہیں ہوسکتے چاہے وہ کتنے ہی بڑے ادارے کے سربراہ ہوں، کسی بھی جماعت کے ذمہ دار کیوں نہ ہوں اور سماجی یا سیاسی میدان میں ان کی طوطی کیوں نہ بولتی ہو۔ وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ ملت اسلامیہ مخلص اور بے لوث قیادت کو پہچانے اور ملت کی باگ ڈور ان کے حوالے کرے ورنہ وہ وقت قریب ہے جب ہندو راشٹر کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا اور قیادت و سیادت کی کرسیوں سے صدائے تحسین و تعاون بلند ہوگی اور اقتدار کی ہاں میں ہاں ملایا جائے گا۔

بابری مسجد سے متعلق فیصلہ نے یقینا عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں لیکن اس نکتہ پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ آیا ملک میں آئندہ عدل و انصاف باقی رہے گا یا نہیں، دستوری ادارے باقی رہیں گے یا نہیں، عدالتیں حقائق اور غیر جانبداری سے فیصلہ کریں گی یا آستھا اور اکثریت یا اقتدار کے اشارے پر فیصلے کریں گی؟ یقینا بابری مسجد کے فیصلے پر ملک کے سرکردہ قانون دانوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے لیکن یہ وقت محض تبصروں یا تبادلۂ خیال کا نہیں ہے بلکہ میدان عمل میں قدم رکھنے کا متقاضی ہے کیوں کہ مجرموں کی برأت اور معصوموں کی حراست کی جدید روایت چل پڑی ہے۔ آواز ِحق کو ختم کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، حق و انصاف کی آواز کو ’’غداری‘‘ سے تعبیر کیا جارہا ہے، اقتدار سے اختلاف کرنے والوں کو لامتناہی مقدمات میں پھنسایا جارہا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ برسر اقتدار گروہ کی یہ کارستانیاں محض ایک فرقہ کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جو اُن کی آواز میں آواز نہ ملا سکے اُس کا شکار ہوسکتا ہے۔ وقت اور حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مطلق العنان اور جبر و ظلم پر مبنی اقتدار کو تبدیل کیا جائے، اقتدار کی سیاہ کاریوں کیخلاف عوامی بیداری مہم چلائی جائے، حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں، معاشی ناکامیوں، بڑھتی قیمتوں اور بڑھتی بے روزگاری کا پردہ فاش کیا جائے اور اکثریت کے غرّہ میں ہورہی من مانی پر روک لگانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔

انتشار و افتراق میں ڈوبی ملت نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر حیرت انگیز طور پر قیام امن کے لئے ’’اتحاد و اتفاق‘‘ کا غیر معمولی مظاہرہ کیا۔ ملت کے قائدین و رہنماؤں نے اگرچیکہ فیصلہ پر ناراضگی اور عدم اتفاق کا اظہار کیا لیکن فیصلہ کو ماننے کا بھی اعلان کیا اور ملت اسلامیہ نے خندہ پیشانی سے اس ناانصافی پر مبنی فیصلہ کو قبول کرتے ہوئے ملک میں ’’امن و بھائی چارہ‘‘ کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ایک انتہائی حساس مسئلہ کے فیصلہ کے بعد ملک بھر میں امن و چین کا وہ منظر سابق میں کبھی نظر نہیں آیا جو اس مرتبہ دیکھا گیا۔ یقینا ایک جمہوری و دستوری ملک میں سارے شہریوں کو امن و قانون کی پاسداری کرنی چاہئے۔ ملت اسلامیہ نے غیرمعمولی صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا اور اب ارباب اقتدار کو یہ پیغام دیا کہ مسلمان امن پسند ہوتا ہے اور قانون و آئین کو ناانصافی کے باوجود ترجیح دیتا ہے لیکن افسوس کہ ملک کے کسی بھی گوشہ سے مسلمانوں کے صبر و ضبط کا نہ میڈیا نے ذکر کیا اور نہ اہل اقتدار نے ہی اس پر اظہار تحسین ضروری سمجھا۔ امن کی جیت ہوئی لیکن افسوس کہ کسی نے بھی اس کی قدردانی نہیں کی گویا کہ چاہے امن و چین ہو یا قانون و آئین کا احترام ملت اسلامیہ کی کوئی بھی کوشش قابل اعتناء نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے 40 دنوں تک مسلسل سماعت کرتے ہوئے ایک حساس اور 70 سالہ پرانے قضیہ کو نمٹایا اور مسجد کے دعویداروں کو بے دخل کردیا لیکن مسلمانوں نے اس فیصلہ کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کا بھرپور احترام کیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندو راشٹر کے ایجنڈہ میں ایودھیا کے بعد کاشی و متھرا بھی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایودھیا پر فیصلہ انھیں کاشی و متھرا کے سلسلہ میں متحرک ہونے کا باعث بن جائے۔ حکومت اور ہندو راشٹر وادیوں کو اس طرح کی غیر دانشمندانہ و غیر حکیمانہ کوشش سے باز رہنا چاہئے ورنہ ملک کا یہ امن و امان باقی رہنا دشوار ہوجائے گا۔ دوسری طرف ملت اسلامیہ کو بابری مسجد کے سلسلہ میں ہوئی کوتاہیوں اور خامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اتحاد و اتفاق کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل بنانا چاہئے تاکہ ملت اسلامیہ کو مزید شکست خوردگی اور ذلت سے محفوظ رکھا جاسکے۔ مسجد کو پوجا پاٹ کے لئے حوالہ کرتے ہوئے ہر مسلمان دُکھی ہے، افسردہ ہے اور اشکبار بھی لیکن ظاہر ہے کہ قانون کی حکمرانی اپنی پسند، خواہش اور مرضی سے اونچی ہوتی ہے اس کی پاسداری ہر قیمت پر لازم آتی ہے۔ یوں بھی مساجد مسلمانوں کی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ مساجد اللہ کا گھر اور اللہ ہی کی ملکیت ہوتی ہیں۔ یہ بات قابل ستائش ہے کہ نامساعد حالات اور کٹھن مراحل کے باوجود ملی قیادت نے خود سے نہ مسجد سے دستبردار ہونا پسند کیا اور نہ ہی تحفہ کے طور پر حوالہ کرنا گوارا کیا بلکہ بساط بھر مسجد کی حفاظت کی کوشش کی لیکن جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اس فیصلہ کو قبول کرلیا۔

گویا کہ اب ملت اسلامیہ اور اس کی قیادت نے مسجد کے قضیہ کو مسجد کے اصل مالک کے دربار میں پیش کردیا ہے کہ مالک ہم نے بساط بھر تیرے گھر کی حفاظت کی کوشش کی لیکن جابر و ظالموں کے سامنے ہم بے بس ہوچکے ہیں۔ اب تو ہی تیرے گھر کی حفاظت کرلے کیوں کہ تو ہی بہترین کارساز ہے۔ ملت اسلامیہ کے لئے ’’حرم پاک‘‘ کی حفاظت کا واقعہ بصد باعث اطمینان ہے کہ جب حضرت عبدالمطلب کے زمانے میں یمن کے ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ کعبہ کو ڈھانے کا قصد کیا، مکہ کے قریب پہنچ کر اُس نے شہر والوں کے جانور پکڑ لئے جن میں حضرت عبدالمطلب کے 200 اُونٹ بھی تھے وہ ابرہہ کے پاس گئے اور اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس نے تعجب سے پوچھا کہ کیا آپ کو خبر نہیں کہ میں کعبہ کو منہدم کرنے آیا ہوں، آپ مکہ کے سردار ہیں لیکن اس کے متعلق کچھ نہیں کہتے؟ عبدالمطلب نے کہا ’’میں جس کا مالک ہوں اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہوں، کعبہ کا جو مالک ہے وہ اس کی حفاظت خود کرے گا‘‘۔ ملت اسلامیہ کو ہرگز مایوس اور دل شکستہ ہونے کی ضرورت نہیں، اب مقدمہ مالکِ کائنات کی عدالت میں پہنچ چکا ہے، اگر صدق دل سے فریاد کی جائے تو ابابیل کا لشکر پھر آسکتا ہے اور حرمِ پاک کی جس طرح حفاظت ہوئی اسی طرح مسجد بابری کی بھی حفاظت ہوسکتی ہے۔ 1992 ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد لاتور میں آئے زلزلے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے، شرط یہی ہے کہ ’’ڈرو نہ گھبراؤ تم ہی غالب رہو گے بشرطیکہ تم مومن ہو‘‘۔ ٭
نکلے گا سچ کا نور اسی کالی رات سے
تو اس پر خوش نہ ہو کہ تیرا جھوٹ چل گیا