بابری مسجد نظرثانی درخواست مزید مسائل کی دعوت

   

نیرج ورادرن
بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا ہندوستان میں امن کے تناظر میں اس مقدمہ کے فریقوں نے تہہ دل سے خیرم مقدم کیا۔اس فیصلے کے بعد دونوں طرف سے کسی بھی ایسے ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا جس سے ملک میں نقص امن کا خطرہ پیدا ہوسکتا تھا۔ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کا احترام کیا گیا حالانکہ کئی ایسے گوشے ہیں جنھوں نے اس فیصلے پر عدم اطمینان ظاہر تو کیا لیکن تنازعہ کی سنگینی اور اس کے بعد ملک کے امن کو مقدم رکھتے ہوئے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ۔رہی اس فیصلے پر نظرثانی کی بات تو یہ ہمارا آئینی حق ہے جس پر برانگیختہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہمارا نظریہ ہے کہ اب ریویو پٹیشن ( نظر ثانی کی درخواست ) داخل کرنے سے کیا حاصل نہیں ہوگا۔مسلمان ایک بار پھر رسوائی کا شکار ہوں گے کیونکہ جب فیصلہ تاریخی شواہد اور ثبوتوں کی بنیادپر نہ کرتے ہوئے آستھا اور عقیدت کی بنیاد پر ہو تو نظرثانی کے لئے درخواست داخل کرنا بے مقصد ہی لگا ۔ سپریم کورٹ نے واضح طورپر عقیدت کی بنیاد پر فیصلہ سنایاہے۔فیصلے میں رام للا کو ایک مدعی کی حیثیت دیکر ان کا متنازعہ زمین پر حق ملکیت تسلیم کیا گیاہے۔جب سپریم کورٹ رام للا کو زمین کا مالک تسلیم کررہی ہے تو کیا مسلمان اب بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ عدالت رام للا کے خلاف فیصلہ سنانے کی کارروائی کرے گی ؟۔قانونی لڑائی تاریخی شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر لڑی جاتی ہے ،عقیدت کی بنیاد پر نہیں۔ویسے بھی عدالت نے فیصلے میں مسلمانوں کے عقیدہ کو کوئی اہمیت نہیں دی تو پھر ریویو پٹیشن داخل کرنے کا کیا فائدہ ہوگا؟۔ اگر ریویو پٹیشن قبول ہوجاتی ہے تو اب لڑائی ثبوتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدوں کی بنیاد پر لڑی جائے گی۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اب زعفرانی تنظیمیں یہ پروپیگنڈہ کرینگی کہ مسلمانوں نے رام للا کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیاہے کیونکہ عدالت نے زمین کا مالک رام للا کو قراردیاہے۔اس لئے ملک میں امن و امان برقرار رکھنے اور زعفرانی تنظیموں کے پروپیگنڈہ کو ختم کرنیکے لئے ریویو پٹیشن داخل کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں بابری مسجد کے لئے الگ سے پانچ ایکڑ زمین دینا اس بات کی دلیل ہے کہ عدالت نے متنازعہ زمین پر مسلمانوں کے حق ملکیت کو تسلیم کیاہے۔اگر مسلمانوں کے حق ملکیت کو تسلیم نہ کیا جاتا تو پھر الگ سے پانچ ایکڑ زمین دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ قابل غور بات یہ ہے کہ متنازعہ زمین پر مسلمانوں کے حق ملکیت کو تسلیم کرنے کے باوجود ہندوئوں کے عقیدہ کی بنیاد پر فیصلہ کیوں سنایا گیا؟۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ سپریم کورٹ کو یہ یقین تھاکہ اگر فیصلہ ملک کی اکثریت کے حق میں نہیں دیا گیا تو اقلیتوں کی جان، مال اور ناموس محفوظ نہیں رہے گی۔عدالت نے اس فیصلے میں دوراندیشی کا ثبوت دیاہے ،یہ الگ بات کہ اس فیصلے کی تمام ناقدین نے تنقید کی ہے کیونکہ فیصلے میں ہماری عقیدت کا احترام ملحوظ نہیں رکھا گیا لیکن جب ہم اس فیصلے پر غورکرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ ملک کے حق میں ہے اور ملک کے مسلمانوں کے حق میں بھی۔ہاں اس حقیت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ فیصلے کی بنیادیں کمزور ہیں جس پر تنقید جاری ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دوسرے جو نظرثانی کا مطالبہ کررہے ہیں دراصل اپنی قیادت کا پرچم بلند رکھنے کے خواہاں ہیں۔ جس طرح بی جے پی نے رام مندر کا قضیہ زندہ رکھ کے ہمیشہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اسی طرح بعض مسلم رہنمائوں اور وکیلوں نے بابری مسجد تنازعہ کو زندہ رکھا تاکہ ان کی قیادت کا بھرم باقی رہے۔آج بھی یہ لوگ بابری مسجد کے نام پر اپنی مردہ سیاست اورقیادت میں دوبارہ روح پھونکنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اب اس راکھ کے ڈھیر میں چنگاری تک نہیں ہے۔
مسلم قیاد ت کا یہ کہنا کہ مسجد کو منتقل نہیں کیا جاسکتاہے لہذا بابری مسجد کی منتقلی کے لئے وہ آمادہ نہیں ہیں ،ایک مضحکہ خیز بیان ہے جس میں تاریخ سے ناواقفیت صاف جھلکتی ہے۔اس سے پہلے بھی عالم اسلام میں مسجدیں منتقل ہوتی آئی ہیں ۔اگر اسلامی ممالک میں مساجد کی منتقلی کا نظام موجود ہے تو پھر ہندوستان میں واویلا مچانے کی کیا ضرورت ہے ؟۔مسئلہ بس اتنا ہے کہ مساجد کی منتقلی کا یہ سلسلہ ایسے ممالک میں پیش آیا جن سے ہماری عقیدتیں وابستہ ہیں ،اس لئے ہم نے کبھی ان کے خلاف بولنے کی جرآت نہیں کی۔ترکی میں دو سو سالہ قدیم مسجد کو ڈیم کی تعمیر کے لئے منتقل کیا گیا تھا اس وقت پورا عالم اسلام خاموش رہا۔اگر مساجد کی منتقلی غیر اسلامی عمل ہے تو پھر ہم اسلامی ملکوں کے خلاف کیوں نہیں بولتے ؟۔ اگر ہندوستان میں اپنی قیادت کے تحفظ کے لئے سیاست کی جارہی ہے تو پھر قائدین محترم ہندوستان میں امن و بھائی چارہ کا ماحول بنارہنے دیں۔اس کو ختم کرنے کی کوشش بالکل نہ کریں۔اب بہتر یہی ہوگا کہ عدالت کے فیصلے کا احترام کیا جائے۔
جو مسلم قائدین عدالت کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کررہے ہیں انہوں نے کبھی مسلمانوں کی تعلیمی ،اقتصادی اور سیاسی پسماندگی دورکرنے کے لئے کوئی مضبوط منصوبہ بندی کیوں نہیں کی ؟۔ ایودھیا میں اگر بابری مسجد تعمیر ہوجاتی ہے تب بھی کیا مسلمانوں کی ترقی کی راہیں ہموار ہوجائیں گی ؟۔ ہرگزنہیں !۔اس وقت ملک کا نوجوان اپنی لیڈرشپ سے متنفر ہوچکاہے۔وہ مایوسی کے عالم میں اپنے قائدین کی جانب دیکھ رہاہے کہ آخر انہوں نے ہمارے مستقبل کی بہتری کے لئے کیا مناسب اقدامات کئے ہیں ؟۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لیڈروں اور تنظیموں کے پاس فنڈ آتا ہے لیکن افسوس ان کے پاس نہ تو کوئی معقول وژن ہے اور نہ قوم کے جوانوں کے لئے کوئی منصوبہ بندی۔یہ فقط اپنی حکمرانی قائم رکھناچاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔اب مسلم نوجوانوں کو ایسے لیڈروں کے دام فریب سے باہر نکلنا ہوگا کیونکہ اب ایسے ضمیر فروش لیڈر ان کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرسکتے !جوانوں کو بیدار ہونا ہوگا۔ اب ہندوستان میں امن و امان اور یکجہتی کے فروغ کے لئے مسلسل کوششیں ہونی چاہئیں۔ جو تنظیمیں ’ ہندتوو‘ اور ’راشٹرواد‘ کی بنیادپر سیاست کررہی ہے ان کا جھوٹ بھی اب طشت از بام ہوچکا ہے۔یہ بوکھلائی ہوئی سیاسی جماعتیں ہماری ایک چھوٹی سی غلطی سے دوبارہ بام عروج پر پہونچ سکتی ہیں ،لہذا ان کے زوال کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔