بات کرنے سے بات بنتی ہے – مولانا ارشد مدنی ۔ موہن بھاگوت ملاقات

   

عامر علی خاں
(نیوز ایڈیٹرسیاست )

ہمارے وطن عزیز میں گزشتہ برسوں سے فرقہ پرستی کے رجحان میں جو اضافہ ہوا، اس کی مثال آزاد ہند کی تاریخ میں نہیں ملے گی، ویسے بھی 2002ء میں گجرات فسادات سے ہی اس میں شدت آئی تھی، لیکن ہمارے ملک میں گجرات فسادات اور اس کے پیچھے کارفرما عناصر پر خوب لعن طعن کی گئی، ان فسادات کیلئے کون ذمہ دار تھا، اس قاتل ٹولے میں کون کون شامل تھے، قاتلوں کے اس ٹولے کی سربراہی یا قیادت کس نے کی، سارا ملک، ساری مہذب دُنیا جانتی ہے۔ ہر محب وطن ہندوستانی نے ان کو درد ناک و کربناک واقعات کی مکمل مذمت کی تھی اور اور اس معاملے میں ہمارے غیرمسلم آبنائے وطن آگے آگے تھے، آج بھی گجرات فسادات کے متاثرین کیلئے ہم سے زیادہ غیرمسلم بھائی بہنیں عدالتوں میں لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اس جذبہ انسانیت کیلئے ان غیرمسلموں کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔ ہم بات کررہے تھے، پچھلے چھ برسوں کے دوران ملک میں فرقہ پرستوں اور فرقہ پرستی کے عروج کی، اس سلسلے میں اگر دیکھیں تو گاؤکشی، لو جہاد، تبدیلیٔ مذہب ، لاؤڈ اسپیکرس پر اذان دیئے جانے پر اعتراض، عیدین و خصوصی موقعوں پر مساجد کے باہر نمازوں کی ادائیگی، مسلم ناموں کے قصبات، ٹاؤنس، شہروں وغیرہ کوسنگھی رہنماؤں و ہندو مذہبی قائدین سے موسوم کرنے کے ناپسندیدہ عمل مختلف بیانوں سے مسلمانوں بالخصوص مسلم نوجوانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات اور ان تمام سے بڑھ کر شریعت میں مداخلت کی کوشش (طلاق ثلاثہ پر فوجداری کارروائی) جیسے اقدامات سے مسلمانوں کو ستانے کی پوری پوری کوششیں ہوئی ہیں۔ ان تمام واقعات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ ہندو ووٹ بینک کو مستحکم کرنے اور اقتدار پر اپنی پکڑ کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے۔ یہاں تک کہ سنگھ پریوار نے ہندو راشٹر کا جو منصوبہ 1925ء میں اپنے قیام کے وقت بنایا تھا، اس پر عمل آوری کو یقینی بنانا ہے، جہاں تک ہندو راشٹر کا سوال ہے، ہمارے اس عظیم ملک میں سکیولرازم اور جمہوریت کی بنیادیں کافی مستحکم ہیں۔ اگر کوئی ان بنیادوں کو غیرمستحکم کرنے کے اقدامات کرتے ہیں تو اس کا مطلب وہ سارے ہندوستان کو کمزور کررہی ہے۔ اس ملک کی 130 کروڑ زیادہ میں مسلمانوں کی آبادی 25 کروڑ سے زیادہ ہے۔ (یہ اور بات ہے کہ سرکاری اعداد و شمار میں مسلمانوں کی آبادی 17 کروڑ بتائی جاتی ہے) سکھ اور عیسائی کمی اقلیت میں ہیں، اگر فرقہ پرست سرکاری سرپرستی کے زعم پر اقلیتوں کو ستاتے ہیں اور بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں تو انہیں یہ نکتہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ملک میں اتنی بڑی آبادی کو ذرا دھماکر یا ان کے ساتھ ناانصافی و حق تلفی کرتے ہوئے وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے جیسا کہ میں نے سطور بالا میں کہا ہے کہ بھولے بھالے ہندوؤں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے، ان حالات میں ہمارا بھی فریضہ بنتا ہے کہ ابنائے وطن کو کم از کم اپنے آباء و اجداد کی طرح اپنی سچائی، دیانت داری، انسانیت نوازی، علم و عمل کے ذریعہ متاثر کریں۔ ان پر دین حق کی حقانیت واضح کریں۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آج فرقہ پرستوں کے عروج کے باوجود ہندوستانی شہریوں کی اکثریت انسانیت محبت و اتحاد میں یقین رکھتی ہے۔ حالات چاہے کتنے بھی خراب ہوں، مسلمانوں کو مایوس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ خود دین سے قریب کرنے اور اخلاق و کردار کا پیکر بن کر غیرمسلموں کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت ہے۔ ساری دنیا جانتی کہ لڑائی جھگڑے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ

بات کرنے سے بات بنتی ہے
چنانچہ ہمارے علمائے و مشائخین ایسی کئی شخصیتیں ہیں جن کے اخلاق و کردار سے غیرمسلم بھائی بھی متاثر ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے غازی ہیں۔ غیرمسلم ابنائے وطن بالخصوص فرقہ پرستوں کو بھی اندازہ ہے کہ یہ سچے مسلمان ہیں اور اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل کرتے ہیں۔ کذب بیانی سے کام نہیں لیتے، ملک و قوم کو دھوکہ نہیں دیتے۔ اَنا پرستی ان میں نہیں پائی جاتی، انہیں اپنے آپ سے زیادہ دوسروں کی بہتری کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ وہ ان سیاسی قائدین کی طرح نہیں ہوتے جو ہر مسئلہ پر ٹیوٹر پر کچھ ٹوئٹ کردیتے ہیں، پارلیمنٹ میں کچھ زوردار آواز میں بول کر وقتیہ طور پر واہ واہ بٹورلیتے ہیں یا جذباتی تقاریر اور نعروں کے ذریعہ ملت کو نقصان اور فرقہ پرستوں کو راستہ یا بالواسطہ فرقہ پرستوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ بہرحال جیسا کہ میں نے لکھا کہ بات کرنے سے بات بنتی ہے۔ 30 اگست کو آزاد ہند کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ رونما ہوا، اگرچہ واقعہ ابتداء میں بہت کم لوگوں کے علم میں آیا لیکن بعض نیوز سائیٹس یا ایجنسیوں نے اسے تفصیلی طور پر پیش کیا۔ دراصل اس دن ہندوستان کی دو بڑی تنظیموں جمعیت العلمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی اور آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے درمیان انتہائی خوشگوار ماحول میں زائد از دیڑھ گھنٹہ بات چیت ہوئی جس میں ملک کی موجودہ صورتحال بالخصوص اقلیتوں پر مظالم، ملک کی جمہوریت، دستور اور سکیولرازم کو لاحق خطرات، ہجومی تشدد (اس قسم کے واقعات میں تاحال 100 سے زائد لوگ مارے گئے، جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے) مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرستوں کے اشتعال انگیز بیانات تقاریر و مضامین، بین مذہبی مذاکرات کی اہمیت جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا۔ اس ملاقات کے بارے میں مزید کچھ لکھنے سے قبل آپ کو بتادوں کہ جمعیت العلمائے ہند اور آر ایس ایس دونوں قوم پرستی کے دعوے کرتے ہیں خود کو حب الوطن قرار دیتے ہیں۔ مولانا ارشد مدنی اور بھاگوت ملاقات کے بعد آر ایس ایس کا ایک بیان منظر عام پر آیا جس میں کہا گیا کہ آر ایس ایس قوم پرستوں سے بات چیت کیلئے ہمیشہ تیار ہے۔ اس بیان پر کہا جاسکتا ہے، آر ایس ایس کی قوم پرستی کے بارے میں اور اس کی حب الوطنی و تحریک آزادی میں اس کے کردار کے بارے میں سارا ہندوستان جانتا ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں تاریخ کو مسخ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، لیکن تاریخ میں جو حقائق ایک مرتبہ درج ہوجاتے ہیں، وہ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ تاریخ وفاداروں کی وفاداری حب الوطنوں کی حب الوطنی، غداری کی غداری کو کبھی فراموش نہیں کرتی، چاہے اس پر تعصب و جانبداری کی کثیف پرت چڑھاکر اسے چھپانے کی لاکھ کوشش کی جائیں۔ خیر مولانا ارشد مدنی اور موہن بھاگوت کی ملاقات کے بعد یہ مثبت تبدیلی دیکھی گئی کہ موہن بھاگوت نے آر ایس ایس کارکنوں پر زور دیا کہ وہ اقلیتوں کو قریب کریں، آپ کی اطلاع کیلئے بتانا بھی ضروری ہے کہ بی جے پی کے سابق جنرل سیکریٹری رام لال نے اس ملاقات کا اہتمام کروایا جس میں این آر سی پر بھی بات ہوئی۔ دہلی کے کیشو گنج میں واقعہ آر ایس ایس دفتر میں بات چیت کے بعد مولانا ارشد مدنی نے ملاقات میں جن اُمور پر تبادلہ خیال کیا، اس پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھاگوت کے ساتھ ہندو۔ مسلم اتحاد کو مستحکم کرنے پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ہجومی تشدد پر انہوں (مولانا ارشد مدنی) نے اپنی تشویش سے انہیں واقف کروایا۔ ان کے خیال میں یہ غیرسیاسی مباحث تھے۔ انہوں نے اپنے متعدد انٹرویوز میں یہ بھی واضح کردیا کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے مستقبل میں بھی وہ رابطہ میں رہیں گے اور بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مولانا ارشد مدنی نے یہ بھی واضح کردیا کہ بھاگوت نے ہندو راشٹر کی خواہش کے بارے میں کوئی بات نہیں کی لیکن اشارہ تو دیا بلکہ سنگھ ہندو راشٹر سے متعلق اپنی سوچ و فکر میں تبدیلی لاسکتی ہے۔ (اگرچہ مولانا ارشد مدنی کا یہ خیال ہے لیکن آر ایس ایس کے قیام کے مقاصد اس کے طویل مدتی منصوبہ اور شدت پسندی مذہبی انتہا پسندی کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ سنگھ اپنے موقف سے ہٹ سکتی ہے) مولانا ارشد مدنی نے بعد میں یہ اُمید ضرور جتائی کہ ملک تباہی و بربادی کی جانب آگے بڑھ رہا ہے۔ اقتصادی حالت تباہ ہوچکی ہے یا تباہی کی سمت رواں دواں ہے۔ اس پس منظر میں سنگھ کی سوچ و فکر میں تبدیلی آسکتی ہے۔ دوران گفتگو مولانا ارشد مدنی کے مطابق ایک ایسا لمحہ بھی آیا جب انہوں نے بھاگوت کو بتایا کہ آر ایس ایس کے لوگوں نے مسلمانوں اور سکیولرازم کے خلاف لکھا ہے جس پر بھاگوت کا جواب کچھ یوں تھا: ’’آر ایس ایس کسی کے نظریات اپنانے کی پابند نہیں‘‘۔ اپنے انٹرویوز میں مولانا کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس ہمارے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتی ہے تو ہمیں بھی نرم کیوں نہیں ہونا چاہئے جو بھی بات ہوتی ہے، میں مسلمانوں کو اور بھاگوت اپنی کمیونٹی کو اس سے واقف کروائیں گے۔

آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت مولانا ارشد مدنی نے ملاقات اور بات چیت کرتے ہوئے یہ پیام ضرور ہے: ’’یہ اور بات ہے کہ آندھی ہمارے بس میں نہیں مگر چراغ جلانا تو اختیار میں ہے۔
جہاں تک مولانا ارشد مدنی اور بھاگوت کی بات چیت کا سوال ہے، یہ ایک اچھی پہل ہے لیکن بات چیت کے نتائج کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان قائدین کی تنظیموں کی کیا اہمیت ہے۔ وہ ملک میں کتنا اثرورسوخ رکھتی ہیں اور قائدین کتنے بارسوخ ہیں۔ اس کیلئے ہمیں دونوں تنظیموں کے قیام، ان کے مقاصد اور جدوجہد آزادی میں ان کے کردار کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔ ہم پہلے جمعیت العلمائے ہند کی بات کرتے ہیں۔ 19 نومبر 1919ء میں اس کا قیام عمل میں آیا، وہ ان کا مقصد ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آمادی دلانا، ہندو۔ مسلم اتحاد کو مستحکم و یقینی بنانا اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں مسلمانوں کو دیگر ابنائے وطن کے مساوی حصہ دار بنانا اور ان میں احساس پیدا کرنا کہ مسلمان اس ملک کے کرایہ دار نہیں بلکہ اس کے مساوی حصہ دار ہیں اور ان کے بغیر ملک کی تقدیر کے فیصلہ نہیں کئے جاسکتے۔ جمعیت العلمائے ہند نے تقسیم ہند اور تخلیق پاکستان کی مخالفت کی۔ ہندو۔ مسلم اتحاد اور گنگا جمنی تہدیب کی ہمیشہ وکالت کی۔ جدوجہد آزادی میں انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر کام کیا۔ سکیولر، جمہوری ہندوستان اور اس کے دستور کے تحفظ پر زور دیا۔ جمعیت العلمائے ہند دراصل شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا احمد سعید دہلوی، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مفتی محمد نعیم لدھیانوی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا بشیر احمد بھٹہ، مولانا انوار شاہ کشمیری، مولانا عبدالحق آکوروی، مولانا عبدالحلیم صدیقی، مولانا نورالدین بہاری اور مولانا عبدالہاری فرنگ محلی جیسے علماء و اکابرین کے خوابوں کی تعبیر اور ان کے پاکیزہ منصوبوں اور فکر و نظر کا نتیجہ ہے۔ اگرچیکہ 1919ء میں جمعیت العلمائے ہند کا قیام عمل میں آیا تاہم 1877ء میں شیخ الہند مولانا محمودالحسن نے ثمرات التربیت قائم کرکے اس کی شروعات کی تھی پھر 1909ء میں جمعیت الانصار کا قیام عمل میں آیا، پھر نطارت المعارف اس کے بعد لشکر نجات دہندہ (لبریشن آرمی) (شیخ الہند مولانا محمود الحسن اس آرمی کے سربراہ مقرر کئے گئے)۔

مذکورہ تنظیموں کو جمعیت العلمائے ہند کی ابتدائی شکل کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ آپ کو یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ مولانا عبیداللہ سندھی نے جو جلاوطن حکومت قائم کی تھی، مہاراجہ پرتاپ سنگھ اس کے صدر جبکہ مولانا برکت اللہ بھوپالی اور عبیداللہ سندھی وزراء میں شامل تھے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کا ذکر آتا ہے تو تحریک ریشمی رومال (Silk Letter Movement) کا ذکر ضرور آتا ہے۔ یہ تحریک 1915 میں ان ہی علماء نے شروع کی جنہوں نے جمعیتہ العلماء قائم کی، اس کے بے نقاب ہونے پر 222 علماء کو انگریزوں نے گرفتار کیا تھا۔ جمعیت العلماء کی کوششوں کے باعث ہی 300 علماء نے آزادی کیلئے ہندو۔ مسلم اتحاد کے قیام کی خاطر فتویٰ جاری کیا۔ جمعیت العلماء ہند کا تحریک عدم تعاون میں بھی اہم حصہ رہا۔ جمعیت العلماء ہند نے ہمیشہ ملک کے اتحاد کیلئے کام کیا۔ فرقہ وارانہ فسادات سے مسلمانوں کے تحفظ اور انہیں حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں ماخوذ مسلم نوجوانوں کے مقدمات لڑنے اور انہیں قید سے آماد کرانے میں بھی جمعیت العلمائے ہند کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ 1979ء میں جس طرح مولانا ارشد مدنی نے ملک بچاؤ تحریک شروع کی تھی، اسی طرح کی تحریک موجودہ حالات میں چلانے کی اُمید ہے۔ جہاں تک آر ایس ایس کا معاملہ ہے، ارشد مدنی نے واضح طور پر کہا کہ ملک جمعیت العلماء ہند ڈی ساورکر اور ایم ایس گولوالکر کے خیالات و نظریات سے ہرگز اتفاق نہیں کرتی۔ انہوں نے 2015ء میں آر ایس ایس کو ’’فاشسٹ گروپ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔ آر ایس ایس کے قیام اور اس کے مقاصد کا جہاں تک تعلق ہے، کے بی ہیڈگوار نے 27 ستمبر 1925ء کو ناگپور میں اسے قائم کیا۔ اس کے ویژن اور مشن کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ
زبان سب کی ہوتی ہے
کوئی بات کرتا ہے کوئی بکواس
آج یہی آر ایس ایس اس کی سیاسی وِنگ اور ہندوتوا کی دوسری تنظیموں کو طاقتور بنانے والے جذباتی نعروں و تقاریر اور بکواس کی نہیں بلکہ ایسی بات چیت کی ضرورت ہے جو دشمنوں کے قلوب و اَذہان پر اثر کرے تب ہی تو بات بنے گی۔٭