کمی اثر میں اگر ہو تو یہ بھی ہے تاثیر
دعا کے واسطے دستِ دعا کی شرط نہیں
بجٹ سے پہلے مہنگائی کے اثرات
کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو غیر اہم سمجھنے والی مرکز کی مودی حکومت ان کے چبھتے سوالوں کا جواب تلاش کرنے سے قاصر ہے ۔ ملک کی معاشی صورتحال پر راہول گاندھی ہر گذرتے دن مودی حکومت کو اس کے فرائض کی جانب توجہ دلاتے رہتے ہیں ۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور جی ڈی پی کی شرح پر سوال اٹھایا ہے ۔ حکومت کے پاس ان کا جواب نہیں ہے یا وہ جواب دینا نہیں چاہتی ۔ اس ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کو خاطر میں نہ لانے کے نتائج کی پرواہ کئے بغیر اگر مودی حکومت نے معاشی صورتحال پر سنجیدگی سے جائزہ نہ لیا تو وہ عوام کی ناراضگی کا ایک دن ضرور شکار ہوگی ۔ کورونا وائرس کی وجہ سے گذشتہ ایک سال کے دوران ملک میں چھوٹی اور متوسط صنعتیں تباہ ہوچکی ہیں ۔ غیر معمولی طور پر 3 کروڑ افراد روزگار سے محروم ہوچکے ہیں ۔ تجارت کے کئی شعبے بند ہوچکے ہیں ۔ اب مودی حکومت سال 2021 کا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے ۔ اس بجٹ سے عوام کو کافی توقعات ہیں ۔ بجٹ تیار کرنے کے دوران اس بات کا خاص دھیان رکھنا چاہئے کہ حکومت اپنے حصہ کے طور پر ملک میں بیروزگاری کا مسئلہ کس حد تک حل کرسکتی ہے۔ وزیر فینانس نرملا سیتارامن کو بجٹ کی پیشکشی سے قبل اپنے بجٹ میں چھوٹی اور متوسط صنعتوں کے ساتھ رعایتوں کا معاملہ کرنا ہوگا ۔ اس شعبہ کو ترجیحی بنیاد پر امداد دینی ہوگی کیوں کہ اس شعبہ کو ہی روزگار پیدا کرنے کے لیے اہم مانا جاتا ہے ۔ معاشی طور پر ملک کو طویل مدتی مضبوط بنانے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے اس جانب حکومت کی توجہ ہی نہیں جارہی ہے ۔ کورونا وائرس نے ملک کی معیشت کے ساتھ یہاں کے غریب عوام کی روزمرہ زندگی کو شدید دھکہ پہونچایا ہے ۔ آنے والا بجٹ وزیر فینانس نرملا سیتارامن کے لیے اہم چیلنجس سے نمٹنا ایک خاص موضوع ہے کیوں کہ وہ اپنا تیسرا بجٹ پیش کرنے جارہی ہیں اور ہر سال انہیں نت نئے مسائل کا سامنا ہے ۔ اس سال کورونا کی وجہ سے ملک کا بجٹ بری طرح متاثر رہا ہے ۔ اخراجات اور آمدنی کا گراف بالکل ایک دوسرے کے برعکس ہے ۔ مودی حکومت نے کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے گذشتہ سال کئی پیاکیجس کا اعلان کیا تھا لیکن ان میں سے بیشتر پیاکیجس کے عملی نتائج صفر ہی رہے ہیں ۔ ایک طویل لاک ڈاؤن کے بعد جو معاشی سرگرمیاں شروع ہیں اس سے امید کی جارہی تھی کہ مارکٹ میں بہتری آئے گی لیکن چند شعبوں کے سوا ماباقی معاشی شعبے ہنوز مسائل سے دوچار ہیں ۔ ملک میں خانگی سرمایہ کاری ٹھپ ہوچکی ہے ۔ صرف چند ایک کارپوریٹ اداروں کے سوائے کوئی بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہوسکی ۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی اور ان کے ترجمان اجئے ماکن نے مودی حکومت کی خرابیوں کی نشاندہی کی ہے ۔ حکومت کو پکوان گیاس سے لے کر دیگر اشیاء پر قیمتوں میں اضافہ کا حساب دینا ہے کیوں کہ جب عالمی مارکٹ میں پٹرول ، ڈیزل اور پکوان گیاس کی قیمتیں کم ہورہی ہیں تو ہندوستان میں حکومت نے ان اشیاء پر قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا ہے ۔ اس اضافہ کا براہ راست اثر عوام پر پڑرہا ہے ۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ۔ حکومت کا ان باتوں پر ٹس سے مس نہ ہونا افسوسناک بات ہے ۔ مودی حکومت نے اکسائز ڈیوٹی میں آٹھ گنا اضافہ کردیا ہے ۔ پکوان گیاس پر دی جانے والی سبسیڈی کو تقریبا ختم کردیا گیا ۔ اس لحاظ سے حکومت کو ہنگامی حالات میں 20 لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ آمدنی ہوتی ہے تو اس کا حساب کتاب دینا ہوگا ۔ آنے والے پارلیمانی بجٹ سیشن میں حکومت اور اپوزیشن کو سنجیدہ طور پر غور و خوض کرتے ہوئے بے روزگاری کا مسئلہ ، چھوٹے تاجروں کی پریشانی اور کسان احتجاج جیسے موضوعات پر ہمدردانہ غور کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ بہر حال ریزرو بینک آف انڈیا نے معیشت کا تازہ جائزہ لیتے ہوئے یہ یقین ظاہر کیا ہے کہ اس سال کے تیسرے مالیاتی حصہ میں جی ڈی پی میں مثبت بہتری آئے گی ۔۔
