بجٹ پر 13 ممتاز ماہرین اقتصادیات ناخوش کیوں ہوں گے؟

   

پی چدمبرم
وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے مودی حکومت کی دوسری میعاد کا پہلا بجٹ پیش کردیا ہے ۔ 422 ارب ڈالرس کے اس بجٹ پر کم از کم 13 ماہرین معاشیات یقیناً ناراض ہوں گے۔ پانچ سال قبل جب اُس وقت کے چیف اکنامک اڈوائزر ڈاکٹر اروند سبرامنین نے اپنا پہلا اکنامک سروے( 2014-15 ء) پیش کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان ایک اہم مقام پر پہنچ چکا ہے ۔ ایک ایسا مقام جو اقوام کی تاریخ میں شاذ و نادر ہی آتا ہے ، جس میں ہندوستان بلآخر دو عددی وسط مدتی شرح نمو کی حکمت عملی کا آغاز کرسکتا ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر اروند سبرامنین یہ تسلیم کرنے کے لئے مودی حکومت کی پہلی میعاد کے دوران اس نے جو وعدے کئے تھے ، اس کی نا کامی دیکھنے اپنی مکمل میعاد پوری نہیں کرسکے اور پھر انہوں نے یہ کام اپنے جانشین ڈاکٹر کرشنا مورتی سبرامنین کیلئے چھوڑ دیا تاکہ وہ اس بات کا اعتراف کریں کہ مودی حکومت اپنی پہلی میعاد میں پانچ سال کے دوران قومی مجموعی پیداوار کی اوسط نمو صرف 7.5 فیصد ہی دے سکی ۔
7.5 فیصد شرح نمو اطمینان بخش ہوتی ہے لیکن دو عددی نمو کے نشانے کے قریب اسے نہیں کہا جاسکتا ۔ اس کے علاوہ پچھلے پانچ برسوں میں شرح نمو کا معیاری مقام 7.4 ، 8.0 ، 8.2 ، 7.2 اور 6.8 فیصد تھا۔ ڈاکٹر اروند سبرامنین یقیناً اس بات کو لے کر خوش ہوئے ہوں گے کہ مودی حکومت کے پہلے تین برسوں میں شرح نمو 7.4 فیصد سے بڑھ کر 8.2 فیصد ہوگیا تھا لیکن مجھے شبہ ہے کہ یہ شرح نمو اس وقت تباہ ہوگیا جب نومبر 2016 ء میں نوٹ بندی نافذ کی گئی اور اس نوٹ بندی سے سارا ملک متاثر ہوا۔ تبھی سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ ہماری شرح نمو میں گراوٹ آرہی ہے ۔ مثال کے طور پر شرح نمو 8.2 فیصد سے کم ہوتے ہوئے 7.2 فیصد اور پھر 6.8 فیصد ہوگئی ۔
مودی حکومت نے اپنی دوسری میعاد کا آغاز ایسے وقت کیا جبکہ شرح نمو میں جو کمی ہے، وہ گراوٹ کی جانب رواں دواں ہے۔ شرح نمو برائے سال 2018-19 ء کے سہ ماہی کمپونینٹ 8.0 ، 7.0 ، 6.6 اور 5.8 فیصد تھے ۔ اس تباہ کن صورتحال میں نئے چیف اکنامک اڈوائزر نے مودی حکومت کی دوسری میعاد کیلئے اس طرح کے مقاصد کا تعین کر رکھا ہے۔ ’’ہندوستان 2024-25 ء تک اپنی معیشت کو پانچ کھرب ڈالرس تک پہنچانے کا مقصد رکھتا ہے ۔ جس سے ہندوستان دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ حکومت نے ریزرو بینک آف انڈیا کے لئے جو مخصوص پالیسی فریم ورک بنایا ہے ، اس کے تحت 4 فیصد افراط زر کی شرح دی گئی ۔ چنانچہ مخصوص پالیسی فریم ورک کیلئے قومی مجموعی پیداوار میں حقیقی سالانہ شرح نمو 8 فیصد ہونے کی ضرورت ہے‘‘۔
یہ منصفانہ ہدف ہے۔ ہمارے سامنے جو سوال ہے ، وہ یہ ہے کہ محترمہ نرملا سیتا رامن کا پیش کردہ بجٹ اکنامک سروے میں جو مقاصد کا تعین کیا گیا ہے ، انہیں آگے بڑھائے گا؟
ہم میں سے ہر کوئی کئی باکسس کی ایک فہرست بناکر بجٹ کی بنیاد پر یہ سوال کریں گے کہ ہماری وزیر فینانس نے کتنے باکسس پر نشان لگایا ہے ۔ اکتوبر 2018 ء میں عالمی سطح کے 13 ماہر اقتصادیات نے جو تمام ہندوستانی یا پھر ہندوستانی نژاد ہیں، 14 دستاویزات تحریر کئے اور ان کی ’’اب معیشت کو کس چیز کی ضرورت ہے ‘‘ کے زیر عنوان 2019 ء میں کتابی شکل میں اشاعت عمل میں آئی ۔ ڈاکٹر ابھیجیت بینرجی اور ڈاکٹر رگھو رام راجن نے مختلف آئیڈیاز کا احاطہ کرتے ہوئے ہندوستان کو درپیش 8 سرفہرست چیالینجس کے بارے میں لکھا ۔ ہر ماہر اقتصادیات نے راست یا بالواسطہ طور پر ملک کی معیشت پر تشویش کا اظہار کیا۔ میں نے اسی کتاب سے پانچ آئیڈیاز مستعار لئے ہیں۔
یہ باکسس کیسے ہیں اور کیوں میں نے نشانات لگائے ہیں :
* مالی خسارہ پر قابو : مالی خسارہ پر قابو پانے کا مودی حکومت بہت خراب ریکارڈ رکھتی ہے۔ پہلے پانچ برسوں میں وہ مالی خسارہ کو 4.5 فیصد سے کم کرتے ہوئے 3.4 فیصد تک لانے کے قابل رہی۔ دراصل مالی خسارہ 4 برسوں تک 3.4 اور 3.5 فیصد کے درمیان پھنسا رہا اور بجٹ 2019-20 ء میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ مالی خسارہ کو 3.3 فیصد تک کم کردیا جائے گا۔ 2018-19 ء کا عدد اس سلسلہ میں مشتبہ ہے ، اس کی وجہ بڑے مالی خسارے اور اس سال میں off budget borrowing ہیں۔ ایسے میں 2019-20 کے لئے بھی مالی خسارے کا جو تخمینہ کیا گیا ہے وہ بھی مشتبہ ہے ۔
* عدم کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے شعبے (زراعت ، توانائی ، بینکنگ) : بجٹ تقریر میں زرعی شعبہ کو درپیش مشکلات کے حل یا انہیں راحت فراہم کرنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کا کوئی ذکر نہیں جبکہ شعبہ توانائی کے بارے میں صرف اس موجودہ اسکیم UDAY کا اعادہ کیا گیا۔ جس کا مقصد برقی ترسیل یا ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کا مالیاتی و آپریشنل پلٹنا ہے۔ اس میں قدیم اور غیر موثر پلانٹس کو جوڑا گیا اور قدرتی گیس کی قلت کے باعث گیس پلانٹ کے کم استعمال کی شکایت کو دور کرنے کی بات کی گئی۔
جہاں تک بینکنگ کا سوال ہے ، بجٹ تقریر میں عوامی شعبہ کی بینکوں کی مدد کے لئے 70,000 کروڑ روپئے فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا (یہ بینکیں مکمل طور پر غیر مؤثر ہیں) اور مالی طور پر مستحکم NBFCs کے اثاثوں کی خریدی کے لئے ان بینکوں کو یکمشت چھ ماہی جزوی کریڈٹ گیارنٹی فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے ۔
* بہتر تجارتی ماحول : ملک میں بہتر تجارتی ماحول پیدا کرنے سے متعلق وزیر فینانس کی میز پر کئی ایک آئیڈیاز یا منصوبے تھے اور رہے ہیں۔ ملک میں بہتر تجارتی ماحول کے لئے بہتر ہوتا کہ حکومت بزنس کو بہتر بنانے کیلئے اور اسے آگے بڑھانے کے لئے مارکٹ کی ضرورت کے لحاظ سے اقدامات کرتی اور کاروبار کو آسان بنانے کی راہ ہموار کرتی (یہ بھی آئیڈیاز ہیں جس پر حکومت عمل کرسکتی تھی) ۔ خاص طور پر خصوصی صنعتی منطقے۔ اس کے علاوہ اکسپورٹس کے لئے اہداف کا تعین ضروری نہیں۔ لیبر قوانین میں تبدیلی اسٹارٹ اپس کو بناء اجازت اور بنا ء لائسنس پہلے تین برسوں تک کاروبار شروع کرنے اور چلانے کی اجازت دینا وغیرہ وغیرہ ۔ ایسے ایڈیاز ہیں جسے قبول کیا جاسکتا تھا ۔
* کم بوجھ عائد کرنے والے قواعد : اس کا سب سے بہترین حل بڑے پیمانہ پر غیر مرکوزیت ہے۔ اس عمل کے شروع کرنے کے لئے اسکولی تعلیم کا ریاستوں کو منتقل کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ نکتہ حقیقی دستور میں ہے۔ موجودہ فہرست سے زیادہ سے زیادہ مضامین ریاستی فہرست کو منتقل کرتے ہوئے اس پر عمل کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے برعکس وزیر فینانس نے اسکول اور کالج تعلیم میں مرکزی حکومت کا عظیم تر رول رکھا ہے ۔ آر بی آئی (ریزرو بینک آف انڈیا ) سیبی ، کامپیٹیشن کمیشن آف انڈیا، سی بی ڈی ٹی ، سی بی آئی سی وغیرہ کنٹرولرس میں تبدیل کردیئے گئے ہیں اور ریگولیشن کو بوجھ کم کرنے والا بنانے کے بجائے بوجھ میں اضافہ کرنے والے بنادیا گیا ہے ۔
* زیادہ رقمی منتقلی نے اس مسئلہ پر گورنمنٹ ڈیجیٹل ادائیگیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے اقدامات کی ہے، جس کا مقصد خطیر رقم کی نکاسی کو روکنا ہے ۔ یہ فطری عمل ہے کہ زیادہ سبسیڈیز (رعایتیں) اور نقد فوائد ڈائرکٹ بینیفٹ ٹرانسفر روڈ کے ذریعہ منتقل کئے جائیں گے ۔ اگرچہ یہ معاشی اصلاح سات سال قدیم ہے، میں اس باکس پر رائیٹ کا نشان لگاتا ہوں۔
واضح رہے کہ ہمارے ملک کی معیشت کو اُسی طرح کے انقلابی معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے جو 1991-96 ء میں متعارف کروائی گئی تھی ۔ چونکہ حکومت کو واضح اکثریت حاصل ہے ، اس لئے وہ اس قسم کی اصلاحات نافذ کرسکتی ہے۔ جبکہ حکومت نے incremental reforms نافذ کرنے کا انتخاب کیا ہے، جس سے عالمی سطح کے 13ماہرین اقتصادیات جو تمام ہندوستانی یا ہندوستانی نژاد ہیں، ناخوش ہوں گے ۔