برج بھوشن سنگھ کوئی سنت نہیں ، بی جے پی خاموش کیوں

   

ڈی کے سنگھ
وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں من کی بات پروگرام کا 100 واں ایپی سوڈ مکمل کیا اگرچہ اس میں دہلی کے جنتر منتر پر احتجاج کررہی خاتون ریسلرس کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے ایسا گنا ہے کہ احتجاجی پہلوانوں کو بالواسطہ یا بالراست پیام دیا ہے (جنتر منتر پر ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بی جے پی رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کو ان کے عہدہ سے ہٹانے اور گرفتار کرکے جیل بھیجنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ خاتون ریسلرس نے ان پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کئے ہیں۔ واضح رہے کہ جنتر منتر پر دھرنا پر بیٹھے مرد و خاتون پہلوانوں میں اولمپین میڈلسٹس بھی شامل ہیں۔ خاتون پہلوانوں کا الزام ہیکہ برج بھوشن سنگھ نے گزشتہ دس برسوں کے دوران ان میں سے کئی کا جنسی استحصال کیا۔ جہاں تک برج بھوشن سنگھ کا سوال ہے انہیں بی جے پی کا باہوبالی رکن پارلیمنٹ سمجھا جاتا ہے۔ حیرت اس بات کی ہیکہ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ پر کوئی عام خواتین نہیں بلکہ ایشین گیمس، کامن ویلتھ گیمس اور اولمپکس میں میڈلس حاصل کرتے ہوئے ملک کا نام روشن کرنے والی خاتون پہلوان الزامات عائد کر رہی ہیں اس کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر بی جے پی کے تمام قائدین خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کو مداخلت کرتے ہوئے دہلی پولیس کو یہ ہدایت دینی پڑی کہ برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ مسٹر برج بھوشن اترپردیش کے قیصر گنج کی نمائندگی کرتے ہیں۔
نریندر مودی نے اپنے ماہانہ کے ریڈیو پروگرام من کی بات کے 100 ویں ایڈیشن نے ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلہ پر خاموشی توڑی ہے (لیکن انہوں نے خاموشی کیسے توڑی یہ تو کسی بھی بھارتی، شہری کو نظر نہیں آتا اور نہ ہی سنائی دیا) ان کا کہنا تھا کہ ہماری فوج ہماری کھیل کود کی دنیا سے خواتین کے باختیار بننے بااختیار بنانے کی کئی کہانیاں منظر عام پر آئی۔ یہ ایسی کہانیاں ہیں جن سے ہزاروں لاکھوں لڑکیوں و خواتین کو ایک نیا عزم و حوصلہ ملا، مودی نے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اسکیم کے حوالہ سے بات کی جو انہوں نے ہریانہ جیسی ریاست سے شروع کی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہریانہ کے رہنے والے سنیل جگلان نے بیٹی کے ساتھ سیلفی مہم بھی شروع کی تھی۔ اتوار کے پروگرام کا سنیل بھی ایک حصہ تھے۔ انہوں نے بھی بیٹیوں کے چہروں پر مسکراہٹیں واپس لانے کے لئے پانی پت کی تیسری جنگ شروع کرنے کا کریڈٹ دیا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جنترمنتر پر احتجاج کررہی خاتون ریسلرس بھی ہریانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ یقینا مودی نے اتوار کے ریڈیو پروگرام من کی بات میں خاتون ریسلرس کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی قائدین کے ساتھ ساتھ اس کے حامیوں کا دعویٰ ہیکہ سال 2014 سے خواتین کو بااختیار بنانے بے شمار اقدامات کئے نتیجہ میں خواتین کی کثیر تعداد بی جے پی کی حمایت کرنے لگی، چنانچہ 2019 لوک نیتی ۔ سی ایس ڈی ایس پوسٹ پول سروے کے مطابق 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کے حق میں ووٹ استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد 29 فیصد تھی جو 2019 کے عام انتخابات میں بڑھ کر 36 فیصد ہوگئی۔ اس کے برعکس کانگریس کی تائید و حمایت کرنے والی خواتین کی تعداد 20 فیصد ہوگئی۔ 2014 میں کانگریس کو ووٹ دینے والی 11 فیصد خاتون رائے دہندوں نے 2019 میں اپنی تائید بی جے پی کو منتقل کردی۔ اب تو یہ کہا جانے لگا ہیکہ اگر بی جے پی قائدین اور کارکن غلطیاں کرتے ہیں تو اس کا ذمہ دار مودی کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ برج بھوشن سنگھ کوئی سنت نہیں ہے گزشتہ ہفتہ ہی سینئر وکیل کپل سبل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ برج بھوشن سنگھ کے خلاف 40 مقدمات ہیں۔ پچھلے ڈسمبر کو ایک ایم پی، ایم ایل اے عدالت نے اترپردیش کے سابق وزیر ونود کمار سنگھ کو قتل کرنے کی کوشش (اقدام قتل) کے 29 سالہ قدیم کیس میں بری کردیا۔ تاہم عدالت نے تحقیقاتی عہدہ داروں کی اس بات کے لئے سرزنش کی کہ ان لوگوں نے شواہد اکٹھا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ گزشتہ سال لالن ٹاپ کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کیمرہ برج بھوشن سنگھ نے کچھ یوں اعتراف کیا تھا ’’میری زندگی میں میرے ہاتھ سے ایک قتل ہوا ہے لوگ کچھ بھی کہہ لیں میں نے ایک قتل کیا ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ برج بھوشن سنگھ نے 1990 کے دہے میں ٹاڈا کے تحت کئی ماہ جیل میں گذارے اور انہیں جیل کی یہ صعوبتیں مبینہ طور پر انڈر ورلڈ رکن داؤد ابراہیم کے آدمیوں کی مدد کے لئے برداشت کرنی پڑی۔ پچھلے سال برج بھوشن سنگھ نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ کی زیر قیادت یوپی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوامی نمائندے خاموش ہیں، کسی کو کچھ کہنے یا بولنے کی اجازت نہیں، اگر آپ بات کرتے ہیں کچھ بولتے ہیں تو آپ کو باغی قرار دیا جائے گا۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بی جے پی برج بھوشن شرن سنگھ کو مسلسل تحفظ کیوں فراہم کررہی ہے؟ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غیر معمولی سیاسی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ اس نے گونڈا، بلرام پور اور قیصر گنج جیسے پارلیمانی حلقوں سے مسلسل 6 مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ راجپوتوں میں اس کا اچھا اثر ہے اور وہ دوسرے دو تین پارلیمانی حلقوں میں بھی برج بھوشن اثر رکھتا ہے۔ وہ رام جنم بھومی تحریک کا ایک حصہ تھا اور شہادت بابری مسجد مقدمہ کا ایک ملزم بھی رہا (یہ اور بات ہے کہ عدالتوں نے بعد میں بابری مسجد کے تمام ملزمین و مجرمین کو بری کردیا) ان وجوہات کے باعث ہی بی جے پی میں برج بھوشن سنگھ کا قد بڑھ گیا۔ اس کی قدر ہونے لگی۔ بی جے پی شائد برج بھوشن کے خلاف اس لئے بھی کارروائی سے گریز کررہی ہے کیونکہ اگر وہ اس کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو 4 تا 11 مئی ہو رہے بلدی انتخابات میں اس کے امیدواروں کی کامیابی کے امکانات متاثر ہوسکتے ہیں۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بی جے پی حد سے زیادہ خود اعتمادی میں مبتلا ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس کے اقدامات کی عوام بآسانی تائید و حمایت کریں گے چاہے بی جے پی لیڈروں کے خلاف سنگین الزامات ہی کیوں نہ عائد کئے جائیں، بی جے پی اور اس کی قیادت نے عوامی برہمی کو کوئی پہلی مرتبہ نظرانداز نہیں کیا بلکہ ماضی میں ایسے بے شمار واقعات پیش آچکے ہیں جس میں بی جے پی قائدین یہاں تک کہ مرکزی وزراء اور ان کے خاندانوں پر سنگین الزامات عائد کئے گئے، مثال کے طور پر مرکزی مملکتی وزیر داخلہ اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا نے 2022 میں مبینہ طور پر کھمم پورکھیری میں احتجاجی کسانوں کو قتل کیا، بی جے پی نے اس سنگین واقعہ کو بھی بآسانی نظرانداز کردیا۔ اجئے مشرا اور ان کے بیٹے اشیش مشرا کے خلاف کارروائی کی بجائے یہ دیکھا گیا کہ اجے مشرا کو بی جے پی قیادت کی مکمل تائید حاصل رہی۔ اسی طرح ہریانہ کے وزیر سندیپ سنگھ پر بھی جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کئے گئے اور پولیس تحقیقات کے دوران چیف منسٹر کتھر نے ان الزامات کو ’’لغو‘‘ قرار دیا۔ تاہم برج بھوشن سنگھ کے معاملہ میں بی جے پی نے الگ انداز اور طریقہ استعمال کیا۔ اس نے محسوس کیا کہ مٹھی بھر خاتون پہلوانوں کے احتجاج سے کچھ ہونے والا نہیں۔ میڈیا (گودی میڈیا) بھی اس پر کسی قسم کی توجہ نہیں دے گا اور اس کا انتخابی نتائج پر اثر نہیں پڑے گا بلکہ ہمیشہ کی طرح وزیر اعظم مودی اپنے امیج کے ذریعہ پارٹی کو کامیابی دلائیں گے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک بی جے پی اس روش پر قائم رہے گی اور کب تک عوام اس کے قائدین کی حرکتوں اور ان پر اس (بی جے پی) کی خاموشی پر خاموش رہیں گے۔