دلوں میں زہر ہے جن کے لبوں پہ شیرینی
نقاب اوڑھے ہوئے ایسے بے حساب ہیں لوگ
کسی وقت میں دنیا کے ایک بڑے حصے پرحکمرانی کرنے اور آج بھی کئی ممالک کو دولت مشترکہ میںشمار کرنے والا ملک برطانیہ ان دنوںکئی مسائل کا شکار ہے ۔ معیشت کی وجہ سے ملک کے عوام کے حالات زندگی متاثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکومتیں اور متعلقہ وزراء ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور اسے بہتر راستے پر لانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ عوام کی مشکلات مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ جہاںاشیائے ضروریہ کی قیمتوںمیںاضافہ ہوا ہے وہیں بجلی مہینگی ہوگئی ہے اورپٹرول وڈیزل کی قیمتیں بھی عوام پر بوجھ کا سبب بن رہی ہیں۔ ان سارے حالات میں برطانیہ میں عدم استحکام کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے بورس جانسن کی علیحدگی کے بعد لز ٹروس کو یہ ذمہ داری ملی تھی ۔ تاہم لز ٹروس بھی اس ذمہ داری کو پوری کرنے میں کامیاب نہیںہو پائیں۔ انہوںنے پہلے تو اپنے وزیر فینانس کو برطرف کردیا کہ وہ معیشت کو سدھار نہیں سکے ۔ اس کے بعد خود انہوں نے بھی چند ہی دنوں میںاپنے عہدہ سے استعفی پیش کردیا اور یہ اعتراف کیا کہ وہ حالات کو سدھارنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیںاور برطانوی عوام کو راحت پہونچانے میں ناکام رہی ہیں۔ چند ہفتے قبل برطانیہ کی طویل عرصہ تک ملکہ رہیںایلزبتھ کا بھی انتقال ہوگیا تھا ۔ سارے حالات نے برطانیہ کو عدم استحکام کی صورتحال کا شکار کردیا ہے ۔ برطانیہ اور اس کی معیشت پر بطور خاص روس۔ یوکرین جنگ کے اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ انتہائی مشکل صورتحال کے باوجود برطانیہ میں ہزاروں کی تعداد میں یوکرینی پناہ گزینوں کو قیام کا موقع ملا تھا ۔ انہیں ضروریات زندگی کی سہولتیں فراہم کی گئی تھیں۔ برطانیہ کی جانب سے روس کے خلاف جنگ میں نبرد آزما یوکرین کی ممکنہ حد تک مدد بھی کی گئی ہے ۔ تاہم یہ مدد کرتے کرتے خود برطانیہ کے حالات ابتر ہوگئے ہیں۔ جو صورتحال برطانیہ میں پیدا ہوئی ہے وہ ملک کیلئے اور ملک کے عوام کیلئے اچھی نہیں کی جاسکتی ۔ اس صورتحال کو جتنی جلد ممکن ہوسکتا ہے بہتر بنانا خود برطانیہ کیلئے اور ساری دنیا کیلئے بھی ضروری ہے کیونکہ برطانیہ کا شمار دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے ۔
جو حالات آج برطانیہ میں پیدا ہوگئے ہیں وہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم بورس جانسن جس طرح سے حکومت چلا رہے تھے اس کو برطانوی عوام کیلئے ٹھیک نہیںسمجھا گیا ۔لز ٹروس بھی صرف 43 دن میں اپنے عہدہ سے دور ہوگئیں۔ اب نئے وزیر اعظم کے انتخاب کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوںکا اصرار ہے کہ ملک میں فوری طور پر انتخابات کا اعلان ہونا چاہئے ۔ وزارت عظمی کیدوڑ میں سابق وزیر فینانس رشی سونک بھی شامل ہیں اور انہیں دوسروںپر سبقت دکھائی دے رہی ہے ۔ جو کوئی بھی برطانیہ کے وزیر اعظم بنیں ان کے سامنے چیلنجس ہونگے ۔ انہیں ملک میں استحکام پیدا کرنے پر خاص توجہ دینی ہوگی ۔ عوام کی مشکلات کو راحت میں بدلنے کے اقدامات فوری کرنے ہونگے ۔ جو بوجھ عوام کی جیبوںپر عائد ہو رہا ہے اس کو کس طرح سے کم کیا جائے ان اقدامات کا جائزہ لینا ہوگا ۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر برطانیہ کی ساکھ جو متاثر ہو رہی ہے اس کو بھی بہتر بنانے کے اقدامات کرنے ہونگے ۔ ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہونے کے بعد ہی دوسرے کاموں پر توجہ دی جاسکتی ہے کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر معیشت کو سدھارنے کے اقدامات کی کامیابی مشکوک ہی رہے گی ۔ موجودہ صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ برطانوی عوام کو خود حکومت پر یقین نہیںرہ گیا ہے ۔ وہ حکومت کی کارکردگی کے تعلق سے اندیشوں کا شکار ہیں۔ ان اندیشوں کو دورکرتے ہوئے عوام میںاعتماد پیدا کرنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ حکومت چاہے جس کسی کی ہو عوام کو اعتماد میں لئے بغیر کامیاب ہونی مشکل ہی ہے ۔
عالمی درجہ بندی میں برطانیہ کی معیشت ایک مقام نیچے ہوگئی ہے اور پانچواں مقام ہندوستان نے لے لیا ہے ۔ عالمی درجہ بندی میں ایک مقام کا کم ہوجانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ملک میں داخلی معاشی حالات اچھے نہیں ہیں۔ وزیر اعظم جو کوئی بھی بنیں انہیںاپنے وزیر فینانس کا انتخاب بہت احتیاط سے کرنا ہوگا اور ایسے اقدامات کی منصوبہ بندی پہلے سے کرنی ہوگی جن کے ذریعہ عوام پر عائد ہونے والے اضافی مالیاتی بوجھ کو کم کرنے میں مدد مل سکے ۔ برطانیہ کے عوام جو کئی دہوں بعد معاشی بوجھ محسوس کرنے لگے ہیں اس کو کم کیا جاسکے اور ٹیکس کا نظام ایسا موثر ہو کہ اس کے ذریعہ نہ کارپوریٹس کی کارکردگی متاثر ہونے پائے اور نہ ہی ان کا بوجھ عوام خود پر محسوس کرنے لگیں۔ برطانیہ کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی استحکام اور معاشی بہتری کیلئے زیادہ تاخیر کے بغیر اقدامات کئے جائیں۔
تلنگانہ میں بدلتی سیاسی وفاداریاں
ہماری ریاست تلنگانہ کے محض ایک اسمبلی حلقہ کا ضمنی انتخاب ہو رہا ہے تاہم ساری ریاست میں سیاسی ماحول گرم ہوگیا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایک حلقہ کا نہیںبلکہ ساری ریاست میںاسمبلی انتخاب ہو رہا ہے ۔ ٹی آر ایس ۔ کانگریس اور بی جے پی کی جانب سے زبردست مہم چلائی جا رہی ہے ۔ اس مہم کے دوران تاہم سیاسی وفاداریاں بدلنے کا موسم بھی عروج پر پہونچ چکا ہے۔ جو قائدین ایک سے دوسری جماعت میںشامل ہو رہے ہیں انہیں سیاسی موقع پرست ہی کہا جاسکتا ہے جو اپنے نظریات اور اصولوںکو اپنی سہولت کے اعتبار سے بدلتے جا رہے ہیں۔ ان قائدین کے سیاسی جماعتوں سے وابستگی بدلنے کے اپنے ہی عذر اور بہانے ہوا کرتے ہیں ۔ انہیں عوامی موڈ اور نبض کی کوئی خاص فکر نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف اپنا فائدہ ہی تلاش کرتے ہوئے سیاسی وفاداریاں بدلتے ہیں۔ تلنگانہ میں بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی قائدین ایک سے دوسری جماعت اوردوسری سے تیسری جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ خود حلقہ منوگوڑ میں مقامی سرپنچ اور وارڈ ارکان بھی لاکھوں روپئے کے عوض اپنی وفاداریاں کھلے عام یا در پردہ بدل رہے ہیں۔ اس طرح کے قائدین سے عوام کو ہوشیار اورچوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کی سیاست جمہوریت کو کھوکھلا کرنے کا سبب بنتی ہے۔