کون سی بات نئی آئے دل ناکام ہوئی
شام سے صبح ہوئی صبح سے پھر شام ہوئی
برطانیہ میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد عمل میں آ رہا ہے ۔ وزیر اعظم رشی سونک اور قائد اپوزیشن کائر اسٹارمر کی قیادت میں دو روایتی حریف جماعتوں کے مابین ٹکراؤ دلچسپ دکھائی دینے کے امکانات ظاہر کئے جا رہے تھے اور یہ پیش قیاسی بھی کی جا رہی تھی کہ مقابلہ سخت اور قریبی ہوگا ۔ تاہم جو سروے گذشتہ چھ ہفتوں کی مہم کے دوران دیکھنے میں آئے ہیں ان میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم رشی سونک کی قدامت پسند پارٹی کیلئے ملک کے عوام میںناراضگی اور برہمی پائی جاتی ہے اور گذشتہ 14 برس کے اقتدار کے بعد یہ پارٹی اب اقتدار سے بیدخل ہوسکتی ہے اور کائر اسٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی کو برطانیہ رائے دہندے اقتدار سونپ سکتے ہیں۔ اسٹارمر ہوں یا رشی سونک دونوں ہی نے انتخابی مہم میں بہت شدت کے ساتھ حصہ لیا تھا اور اپنے اپنے موقف سے ملک کے رائے دہندوںکو واقف کروانے کی کوشش کی تھی ۔ ایک دوسرے پر الزامات اور شبہات کا بھی اظہار کیا گیا تھا تاہم یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ سونک کی قیادت میں قدامت پسند پارٹی کو اقتدار سے محروم ہونا پڑسکتا ہے کیونکہ گذشتہ کچھ وقت سے برطانیہ میں داخلی حالات میں بہت زیادہ مشکلات پیش آئی ہیں۔ برطانیہ کے باشندوں کیلئے اخراجات زندگی کی تکمیل بھی مشکل ہوگئی تھی ۔ ملک کے عوام کا احساس ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے کئے جانے والے فیصلوںا ور اقدامات کے نتیجہ میں اپنے اخراجات زندگی کی تکمیل میں ناکام ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کئی بلز میں بھی اضافی ادائیگیوں کی وجہ سے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے عوام کو سہولت فراہم کرنے کی بجائے ان پر بوجھ میں اضافہ ہی کیا ہے جس کی وجہ سے ان کا بجٹ درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے ۔ حکومت کی کارکردگی سے ملک کے عوام بڑی حد تک غیر مطمئن ہی نظر آتے ہیں اور یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ان کی یہ عدم طمانیت اور برہمی کا اظہار وہ اپنے ووٹ کے ذریعہ کرسکتے ہیں۔ برطانیہ کے انتخابی نتائج نہ صرف اس ملک کیلئے بلکہ دنیا بھر کیلئے بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اس لئے ان کے تعلق سے دلچسپی زیادہ ہوگئی ہے ۔
برطانوی عوام کا احساس ہے کہ ان کیلئے حالات گذشتہ چند برسوں میں بہت زیادہ مشکل ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر کورونا وباء کے بعد سے عوام کے کیلئے اپنے اخراجات زندگی کی تکمیل مشکل ہوتی چلی گئی ہے ۔ گذشتہ دنوں رشی سونک حکومت کی جانب سے عوام پر برقی چارجس میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے اور یہ صورتحال کئی برسوں بعد ملک میں پہلی مرتبہ محسوس کی گئی ہے ۔ عوام اس وجہ سے بھی حکومت سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ برطانیہ کے کئی بڑے شہروں میں عوام قومی ہیلت اسکیم کی خدمات سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران نگہداشت صحت سے متعلق خدمات میں ابتری پیدا ہوئی ہے ۔ دواخانوں وغیرہ کی سہولیات عوام کی توقع کے مطابق نہیں رہ گئی ہیں۔ مختلف شعبہ جات میں کام کرنے والے ملازمین کی یونینیں بھی حکومت کے ساتھ ٹکراؤ کی راہ پر دکھائی دی ہیں۔ ہڑتالیں کی گئی ہیں۔ ٹرانسپورٹ سسٹم پر اس کا زیادہ اثر رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں عوام کو مشکلات پیش آئی ہیں۔ اب بھی کئی شعبہ جات ایسے ہیں جو حکومت سے ٹکراؤ کی راہ پر ہی گامزن ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مطالبات کی یکسوئی کی جائے ۔ کئی شعبہ جات کے ملازمین بھی حکومت سے اصرار کر رہے ہیں کہ ان کی یافت میںاضافہ کیا جائے ۔ یہ ایسے مسائل ہوگئے ہیں جو پہلے کبھی برطانیہ میں زیادہ موضوع بحث نہیں رہے تھے ۔ تاہم اب راست ان مسائل کو انتخابی موضوع کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔
ایک تاثر یہ بھی برطانیہ میں پایا جاتا ہے کہ قدامت پسندوں نے ملک میںاستحکام پر خاص توجہ نہیں دی ہے ۔ سیاسی استحکام بھی نہیں دیکھا گیا اور کئی وزرائے اعظم کی تبدیلی عمل میں آئی ۔ خاص طور پر بورس جانسن کے بعد سے تین نئے وزرائے اعظم نے حلف لیا اور یہی وجہ رہی کہ عوام کی توقعات کو پورا کرنے میں کامیابی نہیں مل سکی ۔ اس کے علاوہ لندن جیسے عالمی معیار کے شہر میں عام شہریوں میںاحساس عدم تحفظ پیدا ہوگیا ہے ۔ بحیثیت مجموعی یہی وہ مسائل ہیں جن کی بنیاد پر قدامت پسندوں کیلئے انتخابات میں مشکل کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں اور لیبر پارٹی کے اقتدار کا دعوی کیا جا رہا ہے ۔