بنگالی مسلم شعراء کے ”میاں“ گروپ کے خلاف شکایت درج

,

   

گوہاٹی: ریاست آسام سے تعلق رکھنے والے مسلم بنگالی شعراء نے ریاست میں جاری این آر سی پر اپنی تشویش کو اپنی احتجاجی شاعری کے ذریعہ پیش کررہے ہیں۔ اس احتجاجی شاعری کا نام ”میاں“ کلام رکھا گیا ہے۔ میاں کا لفظ بنگلہ دیشی یا غیر قانونی تارکین وطن کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔اس طرح تقریبا 10”میاں“ شعرا ء اپنی شاعری کے ذریعہ اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ ان شعراء میں شامل ایک اہم شاعر کے خلاف حالیہ دنوں ان کی نظم کی ویڈیو جاری ہونے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ اس نظم میں انہوں نے آسام میں بنگلہ زبان بولنے والے مسلمانوں کے خلاف امتیاز سلوک کو پیش کیا گیا ہے۔ جسے آن لائن نشر بھی کیا گیا ہے۔ جس سے آسامی عوام کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔

اس نظم کو لکھنے والے حافظ احمد نے بتایا کہ انہوں نے سال 2016میں یہ نظم لکھی تھی او راس کا تعلق این آر سی سے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ میری نظم کے ذریعہ آسامیوں کے جذبات میری نظم کے ذریعہ آسامیو ں کے جذبات مجروح ہوئے ہوں۔ میں طویل عرصہ سے آسامی ادب میں کام کرتا آرہا ہو ں۔ انہوں نے کہا کہ آسامی زبان کی تائید کرنے پرمجھ پر حملہ بھی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میر ی جانب سے اگر کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو میں معذرت چاہتا ہوں۔ واضح رہے کہ حالیہ دنو ں میں شعراء کے ایک گروپ نے سوشل میڈیا پر حافظ احمدکی لکھی گئی نظم ”میں میاں ہوں“ جاری کی گئی تھی جس سے تنازعہ پیداہوگیا۔ یہ نظم مشرقی بنگالی زبان میں لکھی گئی ہے۔

اس نظم میں بنگلہ زبان بولنے والے مسلمانوں کے ساتھ روا سلوک کو پیش کیا گیا۔ ا س نظم کے خلاف سینئر صحافی پرنب جیت ڈولیو نے ان دس شعراء کے خلاف شکایت درج کروائی ہے او ران پر آسام عوام کے جذبات کو مجروح کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ گوہاٹی ڈپٹی کمشنر آف پولیس رامندیپ کور نے بتایا کہ اس معاملہ کی جانچ کی جارہی ہے لیکن تاحال کسی کی گرفتارعمل میں نہیں لائی گئی۔