شعلۂ غم کو ذرا اور ہوا دی جائے
یہی بہتر ہے کہ اب شمع بجھادی جائے
بنگال ‘ انتخابی ریاست یا میدان جنگ
مغربی بنگال کے انتخابات ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان بھر میں ایک افسوسناک مثال بنتے جا رہے ہیں۔ ریاست میں سب سے پہلے تو آٹھ مراحل میں انتخابات کا اعلان کیا گیا اور پھر ہر مرحلہ میں تشدد کے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہی عذر پیش کیا گیا تھا کہ انتخابات کے پرسکون انعقاد اور سکیوریٹی کے خاطر خواہ انتظامات کیلئے زیادہ مراحل میںرائے دہی کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن ہر مرحلہ میں تشدد کے واقعات ان انتظامات کے ناکارہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ اب چوتھے مرحلے میں تو انتہاء ہوگئی فائرنگ میںچار افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انتخابات کی لڑائی میں انسانی جانوں کے اتلاف کی کوئی گنجائش نہیںہونی چاہئے اور آج جو کچھ بھی واقعات پیش آئے ہیں وہ انتہائی افسوسناک اورشرمناک کہے جاسکتے ہیں۔ کوئی ایک جماعت اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیگی اور کسی کے حصے میں شکست بھی آئے گی لیکن ان چار گھروں کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی جو بے سہارا ہوگئے ہیں اور جن کے اپنے زندگی ہار بیٹھے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہر سیاسی جماعت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات ہندوستان کی ہی ایک ریاست میں ہو رہے ہیں اور وہاں انتخابات میں حصہ لینے والے اور ووٹ ڈالنے والے سبھی ہندوستانی شہری ہیں۔ اگر ان پر ہی گولیاں برسائی جاتی ہیں تو یہ انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کے سواء اور کچھ نہیں ہے ۔ ملک کی کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاںرائے دہی کے تناسب میں مسلسل کمی آتی جا رہی ہے اور اگر فائرنگ اور تشدد کے واقعات پیش آتے رہیں گے تو رائے دہی کے تناسب میں بہتر آنے کی بجائے مزید گراوٹ آئے گی اور اس کیلئے سیاسی جماعتیں ہی ذمہ دار ہونگی ۔ حد تو یہ ہے کہ مرکزی حکومت ریاستی حکومت کو اور ریاستی حکومت مرکزی حکومت کو ذمہ دار قرار دینے میں مصروف ہے اور الیکشن کمیشن غیر جانبداری سے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں یکسر ناکام ہے ۔ سیاسی جماعتیں تو اپنے مفادات کی تکمیل کرکے چلتی بنیں گی لیکن جو لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں ان کے افراد خاندان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا ۔
الیکشن کمیشن کی اور مرکزی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے کونے کونے میں انتخابات اور رائے دہی کے آزادانہ ‘ منصفانہ اور پرسکون انعقاد کو یقینی بنائیں۔ مخالف جماعتوں کو تشدد کیلئے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کوئی بھی حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ انتہائی افسوسناک واقعات کے ساتھ اگر کوئی بھی جماعت اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ نعشوں پر حکومت کرنے کے مترادف ہوگا ۔ ہندوستان کے جمہوری نظام کو کئی گوشوں سے خطرات لاحق ہیں۔ آج انتخابات پیسے اور طاقت کی جنگ میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ رائے دہندوں پر ایک مخصوص سوچ و فکر کو مسلط کرنے کی کوششیںہو رہی ہیں۔ انہیں آزادی سے اپنی رائے پر پہونچنے اور اس کے استعمال کا موقع تک نہیںدیا جا رہا ہے ۔ اصول او رضوابط کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور پھر پاک صاف انتخابات کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ سرکاری مشنری اور سکیوریٹی دستوں کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ رائے دہندوں کو خوف کے ماحول میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ۔ انتخابی مہم کو حقیقی مسائل سے بھٹکایا جا رہا ہے اور غیر اہم اور نزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے انتخابی مہم کا راستہ ہی بدلا جا رہا ہے ۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ انتخابات کو محض اقتدار حاصل کرنے کی جنگ بنادیا گیا ہے اور یہ جنگ بھی پیسے اور طاقت کے بل پر اور سرکاری ایجنسیوں کے بیجا استعمال کے ذریعہ جیتنے کے حربے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ یہ سارا کچھ ملک کے جمہوری نظام کو متاثر کرنے کی کوششیں ہیں۔
ہندوستانی جمہوریت میں اختلاف رائے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے اور اس کا احترام کیا جاتا رہا ہے ۔ مخالفین کی رائے کو دشمن کی رائے نہیںسمجھا گیا ہے ۔ ہر سیاسی جماعت اپنے وجود کو منوانے کیلئے جمہوری طریقے اختیار کرتی ہے اور دستور ہند کے دائرہ میںرہتے ہوئے کوشش کرتی ہیںلیکن آج بنگال اسمبلی انتخابات کے چوتھے مرحلے میں جو واقعات پیش آئے ہیںوہ انتہائی شرمناک ہیں۔ معصوم عوام کی جانیں تلف ہوگئی ہیں اور سیاسی جماعتیں اس کیلئے ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دینے میں مصروف ہوگئی ہیں۔آج کے واقعات نے ہماری جمہوریت کو داغدار کردیا ہے اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف حکومتوں پر عائد ہوتی ہے ۔ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو سارے ملک اور خاص طورپر بنگال کے عوام سے معذرت خواہی کرنی چاہئے ۔
معاشی استحکام پر توجہ کا فقدان
مرکزی حکومت ملک کے معاشی ڈھانچہ کو مضبوط و مستحکم کرنے پر کوئی توجہ نہیںکر رہی ہے ۔ حکومت اپنے ایجنڈہ کی تکمیل میں جٹی ہوئی ہے ۔ برسر اقتدار جماعت بی جے پی ملک کی ہر ریاست پر حکومت قائم کرنے کی لئے سر دھڑ کی بازی لگاتی جا رہی ہے لیکن بی جے پی کی حکومت ملک کے معاشی نظام کے استحکام پر توجہ کرنے سے قاصر ہے ۔ گذشتہ سال کورونا کی لہر اور لاک ڈاون نے ملک کی معیشت کو تہس نہس کردیا تھا اور حالات اب بھی سنگین ہی تھے کہ کورونا کی دوسری لہر نے سر ابھارنا شروع کردیا ہے ۔ یہ لہر پہلے سے زیادہ شدت والی اور مہلک ثابت ہو رہی ہے اور اس کا اعتراف خود مرکزی حکومت نے کیا ہے ۔ ملک کے کئی شہروںاور ریاستوں میں لاک ڈاون اور دیگر تحدیدات عائد کردی گئی ہیں۔ عوام کی مشکلات میںاچانک ہی بے تحاشہ اضافہ ہونے لگا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ ضرورتمندوںکو ویکسین بھی بروقت دستیاب ہونا مشکل ہوگیا ہے ۔ جو مائیگرنٹ ورکرس ہیں ان کے مسائل ابھی سلجھے نہیں تھے کہ دوبارہ یہ مسائل بڑھنے لگے ہیں۔ یہ ورکرس بمشکل تمام اپنے کام کے مقامات پر پہونچے تھے اور ان کی حالت قدرے بہتر ہونے لگی تھی کہ لاک ڈاون اور تحدیدات کی وجہ سے ان کو دوبارہ کام کاج چھوڑ کر اپنے مقامات کو واپس ہونا پڑ رہا ہے ۔ اس کے اثرات معیشت پر لازمی مرتب ہونگے ۔ مہنگائی میںاضافہ ہوگا ۔ بیروزگاری مزید بڑھے گی ۔ عوام کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوجائیگا ۔ حکومت کو اپنے سیاسی عزائم اور ایجنڈہ کی تکمیل سے زیادہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور عوام کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ مہنگائی پر قابو پانے اور ملازمتوں کی فراہمی کیلئے متبادل انتظامات کئے جانے چاہئیں۔ حکومت جتنا جلد معیشت کے استحکام پر توجہ دے گی اتنا ہی ملک اور عوام کے مفاد میں بہتر ہوگا ۔
