اس دور میں دیکھا یہی گلزار کا معیار
جو پھول ہے رکھتا ہے وہی خار کا معیار
بنگال ‘ ممتابنرجی کا غلبہ برقرار
مغربی بنگال میں ضلع پریشد ‘ پنچایت سمیتی اور گرام پنچایت انتخابات کے ووٹوں کی گنتی چل رہی ہے اور جو رجحانات تادم تحریر دستیاب ہوئے ہیں اور جو نتائج آئے ہیں ان سے ثابت ہوچکا ہے کہ مغربی بنگال میں ترنمول سربراہ اور چیف منسٹر ممتابنرجی کا جادو اب بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ ریاست کی سیاست میں اور ہر سطح پر ان کا غلبہ برقرار ہے ۔ ریاست کے عوام ممتابنرجی پر اٹوٹ بھروسہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کے حق میں ووٹ دینے میں اب بھی عوام کو کوئی عار محسوس نہیں ہوتا ۔ ممتابنرجی اور ترنمول کانگریس کے خلاف مرکزی حکومت اور بی جے پی کی جانب سے سخت الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔ کئی مقدمات بھی اس کے قائدین کے خلاف درج کئے گئے ہیں اور سیاسی طور پر زبردست مہم بھی چلائی جا رہی ہے ۔ یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ ممتابنرجی ریاست کے عوام کی تائید اور بھروسہ کو کھوتی جار ہی ہیں۔ ممتابنرجی اور ان کی پارٹی ہمیشہ ہی عوامی تائید کے مسئلہ پر بااعتماد رہے ہیں اور آج انتخابات کے جتنے بھی نتائج سامنے آئے ہیں ان سے واضح ہوگیا ہے کہ ممتابنرجی اب بھی بنگالی عوام کے دلوں پر راج کرتی ہیں اور ساری جدوجہد اور کوشش کے باوجود بی جے پی نہ ان کی مقبولیت کو گھٹا پائی ہے اور نہ بنگالی عوام کے دلوں میں اپنے لئے کوئی جگہ بنانے میں کامیاب ہوسکی ہے ۔ انتخابی عمل کے دوران تشدد کے بھی افسوسناک واقعات پیش آئے ۔ درجنوں افراد اس تشدد کی نذر ہوگئے اور اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ بنگال کے انتخابات کا یہی ایک منفی پہلو ہے کہ یہاں انتخابی تشدد ملک کی دوسری ریاستوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتا ہے ۔ اس رجحان کو روکنے کیلئے سبھی جماعتوں کو کوشش کرنی چاہئے ۔چاہے وہ ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس ہو یا بی جے پی ہو یا کمیونسٹ جماعتیں ہوں یا پھر کانگریس ہو ۔ اس معاملے میں سبھی جماعتوں کو سرگرم رول ادا کرنا چاہئے ۔ جہاں تک عوامی تائید اور مقبولیت کی بات ہے تو ممتابنرجی اب بھی بنگال کی بلا شرکت غیرے مقبول ترین لیڈر برقرار ہیں۔ بی جے پی ساری کوششوں بلکہ ہتھکنڈوں کے باوجود وہاں اپنے لئے وہ سیاسی جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے جس کی اسے خواہش ہے ۔ کمیونسٹوں اور کانگریس کا موقف بھی ریاست میں بہت کمزور رہ گیا ہے ۔
کچھ عرصہ پہلے تک کمیونسٹوں کا گڑھ سمجھی جانے والی ریاست میں اب ممتابنرجی نے عوامی مقبولیت سے اقتدار حاصل کرلیا ہے ۔و ہ تیسری مرتبہ ریاست کی چیف منسٹر بنی ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے بنگال میں اپنے سیاسی قدم جمانے کیلئے کئی برسوں سے کوشش کی جا رہی ہے ۔ جس وقت سے مرکز میں مودی حکومت قائم ہوئی تھی اسی وقت سے بنگال پر بھی بی جے پی کی نظریں ہیں۔ بی جے پی نے سر دھڑ کی بازی لگانے کے باوجود گذشتہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے اور ممتابنرجی اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھیں۔ بی جے پی حالانکہ کمیونسٹ جماعتوں اور کانگریس کے ووٹ ضرور حاصل کرلئے ہیں لیکن یہ اسے ممتابنرجی سے سیاسی لڑائی کیلئے کافی نہیں ہیں۔ اسمبلی انتخابات میں جس طرح ساری طاقت جھونک دی گئی تھی اسی طرح پنچایت اور گرام پنچایت انتخابات میں بھی بی جے پی نے پوری شدت کے ساتھ مقابلہ کیا تھا ۔ عدالتی کشاکش کے بعد ریاست میں مرکزی سکیوریٹی دستوں کی تعیناتی بھی عمل میں لائی گئی تھی ۔ عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوششوں میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی ۔ اس کے باوجود ترنمول کانگریس نے عوام کی تائید برقرار رکھنے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ ممتابنرجی کے خلاف ہونے والی کوششیں اور سازشیں اب تک کامیاب نہیں ہو پائی ہیں اور نہ ہی مرکزی ایجنسیوں کی جانب سے درج کردہ مقدمات کی وجہ سے انہیںکوئی سیاسی نقصان پہونچایا جاسکا ہے ۔
جہاں تک آج کے پنچایت و گرام پنچایت انتخابات کے نتائج کا سوال ہے تو یہ بی جے پی کیلئے تشویش کی بات کہے جاسکتے ہیں۔ آئندہ چند مہینوں بعد ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ مغربی بنگال سے بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد خاطر خواہ ہے ۔ ممتابنرجی اس تعداد کو ممکنہ حد تک گھٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بی جے پی کیلئے یہاں اپنی سابقہ تعداد کو برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج ہوگا اور خاص طور پر آج کے پنچایت و گرام پنچایت انتخابات کے نتائج نے بی جے پی کی صفوں میںتشویش ضرور پیدا کردی ہوگی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ریاست کیلئے بی جے پی اپنی حکمت عملی میں کیا تبدیلی کرتی ہے ۔