ہوگا مسیحا سامنے تیرے پھر بھی نہ تو بچ پائے گا
تیرا اپنا خون ہی آخر تجھ کو آگ لگائے گا
سیاسی طور پر انتہائی اہمیت کی حامل ریاست مغربی بنگال میں انتخابی تشدد ایک روایت رہی ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ یہاں انتخابات کے نام پر تشدد ہوتا ہے اور انسانی جانوں کا اتلاف ہوتا ہے ۔ جس وقت ریاست میں کمیونسٹ جماعتوں کو طویل اقتدار حاصل تھا اس وقت سے ہی تشدد کا سلسلہ چلا آ رہا ہے ۔ جس وقت سے ممتابنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس نے ریاست میں کمیونسٹوں کے اقتدار کا خاتمہ کیا اور خود اقتدار حاصل کیا اس وقت سے بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ تشدد اور انسانی جانوں کے اتلاف میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں اضافہ ہوگیا ہے اور اس کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے ۔ بنگال میں پنچایت انتخابات ہوں یا پھر بلدی انتخابات ہوں ‘ اسمبلی انتخابات ہوں یا پھر پارلیمانی انتخابات ہوں ہر موقع پر تشدد ہوتا ہے ۔ سیاسی کارکنوں میں تصادم شروع ہوجاتا ہے اور لوگ اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی ایک طویل فہرست رہنے کے باوجود بھی اس کا سلسلہ روکا نہیں جاسکا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اپنے فائدہ اور انتخابی کامیابی کیلئے تشدد کو ہوا دیتی ہیں اورا پنے کارکنوں کی زندگیوں کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کیا جاتا ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے دوران مرکزی فورسیس کو ریاست میں متعین کرنے کیلئے احکام جاری کئے جاتے ہیں لیکن یہ بھی بے اثر ہوتے ہیں۔ بسا اوقات تو سیکیوریٹی فورسیس پر بھی انتخابی تشدد کو ہوا دینے کے الزام عائد کئے گئے ہیں ۔ بنگال کی جو سیاسی صورتحال ہے اس کو انتہائی پیچیدہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں لوگ نظریاتی طور پر بھی مستحکم رہتے ہیں اور سیاسی طور پر باشعور بھی کہے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود تشدد کا وقوع پذیر ہونا ناقابل فہم کہا جاسکتا ہے ۔ انتخابات کو آزادانہ ‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ بنانا سبھی کی ذمہ داری ہوتی ہے اورا س کے ساتھ یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ انتخابی عمل تشدد سے پاک ہو۔ پرسکون اور پرامن ماحول میں انتخابی مہم چلائی جائے ۔ اسی ماحول میں عوام ووٹ ڈالنے کیلئے پولنگ بوتھس تک پہونچیں۔ اپنی پسند اور مرضی کے امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور پھر سیاسی جماعتیں اور امیدوار عوام کے اس فیصلے کو فراخدلی کے ساتھ قبول کریں۔
ویسے تو ملک کی کچھ دوسری ریاستوں میں بھی انتخابات کے دوران تشدد کے واقعات پیش آتے ہیں۔ کہیں معمولی جھڑپیں ہوتی ہیں تو کہیں انتخابی عمل کو کچھ دیر کیلئے روکا جاتاہے۔ ایک یا دو بوتھ پر تشدد کے واقعات کو قابل نظر انداز کہا جاسکتا ہے لیکن جس طرح کا تشدد مغربی بنگال میں ہوتا ہے اسے معمولی نہیں کہا جاسکتا ۔ اس میں انسانی جانوں کا اتلاف ہوتا ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس تشدد کو ختم کرنے اور اس طرح کے اوقعات کی روک تھام کیلئے اپنے طور پر کوشش کریں۔ سیاسی اور انتخابی کامیابی یا فائدہ کیلئے تشدد کوہ وا دینے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ انسانی جانوں کے اتلاف کی تو کوئی بھی وجہ نہیں ہوسکتی۔سیاسی کارکنوں میں جذبات کی شدت بھی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن جذبات کے نام پر تشدد کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ سیاسی جماعتیں جب تک اپنے ورکرس اور کارکنوں کو تشدد سے روکنے کی کوشش نہیں کریں گی اس وقت تک اس طرح کے واقعات کو روکنا مشکل ہوگا ۔ اس حقیقت کو تمام سیاسی جماعتوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی اور انتخابی فائدہ عارضی ہوتا ہے ۔ یہ کوئی مستقل کامیابی نہیں ہوسکتی ۔ اس کیلئے کسی کی جان سے کھیلنا یا کسی کو موت کے گھاٹ اتاردینا انتہائی افسوسناک اور مذموم فعل کہا جاسکتا ہے ۔ اس روش کو جتنا جلدی روکا جاسکے اتنا ہی مغربی بنگال کے عوام کے حق میں بہتر ہوگا اور ریاست کی سیاست کو تشدد سے پاک بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ سیاسی اختلافات اور انتخابی لڑائی کو ذاتی لڑائی یا دشمنی کا رنگ دینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے اور نہ یہ ہندوستان کی روش رہی ہے ۔
فی الحال مغربی بنگال میں برسر اقتدار ترنمول کانگریس اوربی جے پی کے مابین تشدد کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ کچھ دوسری جماعتوں کے کارکن بھی اس کی زد میں آئے ہیں لیکن اصل ٹکراؤ اور تصادم بی جے پی اور ترنمول کانگریس میں ہوتا ہے ۔ دونوں ہی جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ تشدد کے خاتمہ کیلئے پہل کریں۔ اپنے اپنے کارکنوں کو تلقین کی جائے کہ وہ تشدد کا راستہ اختیار نہ کریں۔ نہ خود کسی کی جان لیں اور نہ ہی کسی کو ان کی اپنی جان لینے کا موقع دیا جائے ۔ انتخابی لڑائی کو نظریات اور سیاست تک محدود رکھا جانا چاہئے ۔ ذاتی مخاصمت یا دشمنی کا روپ دیتے ہوئے خون کی ہولی کھیلنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ تشدد کا سلسلہ طاقت کے استعمال سے روکا نہیں جاسکتا ۔ اس کیلئے ریاست میں سرگرم تمام جماعتوں کو عہد کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے بغیر یہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہیںہوگا ۔
کشن ریڈی کیلئے چیالنجس
مرکزی وزیر سیاحت جی کشن ریڈی کو بالآخر کئی ہفتوں کی قیاس آرائیوں کے بعد تلنگانہ میں بی جے پی کی صدارت سونپ دی گئی ہے ۔ بنڈے سنجے کو اس ذمہ داری سے سبکدوش کردیا گیا ہے ۔ بنڈی سنجے کے دور میں ریاستی بی جے پی میں اختلافات انتہائی شدید ہوگئے تھے ۔ کئی قائدین ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کر رہے تھے ۔ ایک دوسرے سے تعاون کرنے سے گریز کیا جا رہا تھا ۔ بی جے پی مرکزی قیادت کے ریاست کے تعلق سے جو منصوبے اور پروگرامس تھے وہ متاثر ہو کر رہ گئے تھے ۔ ریاست کی سیاست میں بی آر ایس کی متبادل کے طور پر ابھرنے کے منصوبے رکھنے والی بی جے پی اچانک ہی کہیں پیچھے چلی گئی تھی اور آئندہ اسمبلی انتخابات میں اصل مقابلہ کانگریس اور بی آر ایس میں دکھائی دینے لگا ہے ۔ ایسے میں بنڈے سنجے کوتبدیل کرتے ہوئے جی کشن ریڈی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ کشن ریڈی کیلئے بھی یہ عہدہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے ۔ ان کے سامنے بھی بڑے چیالنجس ہیں۔ پارٹی قائدین کو متحد کرتے ہوئے انتخابات میں شدت سے مقابلہ کرنا بی جے پی کیلئے اب آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست میں بی آر ایس۔ بی جے پی کے مابین جو قربتیں ہونے لگی ہیں ان میں خاص طورپر دیکھنا یہ ہوگا کہ کشن ریڈی کس طرح سے دونوں کے مابین توازن رکھ پاتے ہیں۔ بی جے پی مرکزی اقتدار کو بچانے کیلئے بی آر ایس کے ساتھ نرم رویہ اختیار کر رہی ہے تاہم ریاستی قائدین اس سے مطمئن نہیںہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کشن ریڈی مرکزی اور ریاستی دونوں قائدین کے مفادات کا کس طرح سے تحفظ کر پائیں گے اور دونوں کو کس حد تک مطمئن کر پائیں گے ۔ ان کیلئے یہ آسان نہیں ہوگا۔