کبھی عرش پر کبھی فرش پر ‘ کبھی اس کے در کبھی در بدر
غم عاشقی تیرا شکریہ ‘ میں کہاں کہاں سے گذر گیا
بنگال میں ’ رام کارڈ ‘ کا سہارا
بی جے پی ایک بار پھر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے مذہب کا سہارا لینے پر اتر آئی ہے ۔ مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کسی بھی وقت شیڈول کی اجرائی ہوسکتی ہے اور ایسے میں بی جے پی قائدین اور مرکزی وزراء وغیرہ کے بنگال کے دوروں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ ترنمول کانگریس نے ان دوروں کو بنگال کی تفریح یا سیاحت کا نام دیا ہے۔ وزیر اعظم نریندرمودی بھی ریاست کا بارہا دورہ مختلف پروگراموں کے بہانے شروع کرچکے ہیں ۔ جہاں بی جے پی قائدین اور مرکزی وزراء کی جانب سے تقریبا ہر موقع پر مذہب کا سہارا لیا جا رہا ہے اور جئے شری رام کے نعرے لگائے جا رہے ہیں یا پھر سماج میں نفاق پیدا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو اس معاملے میںوزیر اعظم نریندر مودی بھی پیچھے نہیں رہ گئے ہیں۔ وہ بھی انتخابات میں کامیابی کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور اس کیلئے کس حد تک جاسکتے ہیں اس کا اندازہ بھی ہوگیا ہے ۔ سب سے پہلے تو اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے دوران 2017 میں وزیر اعظم نے دیوالی ۔ عید ‘ شمشان ۔ قبرستان وغیرہ کا حوالہ دیا تھا ۔ ان کے اس بیان پر کافی تنقیدیں ہوئی تھیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ خود وزیر اعظم یا بی جے پی کے کوئی بھی لیڈر یا مرکزی وزراء کسی بھی طرح کی تنقید کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں اور ان کا مطمع نظر صرف انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہی ہے چاہے اس کیلئے کچھ بھی کرناپڑے ۔ وزیر اعظم نے آج بنگال کا دورہ بھی کیا اور وہاں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ممتابنرجی حکومت پر تنقید کی ۔ اپوزیشن جماعتوں یا ان کی حکومتوں پر تنقید کرنا ان کا حق ہے لیکن اس کیلئے مذہبی جذبات کا سہارا لینا یا پھر مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرنا حق بجانب نہیں ہوسکتا اورا س کو سماج میں قبول بھی نہیں کیا جانا چاہئے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے پاس انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کا واحد سہارا مذہب یا مذہبی جذبات ہی رہ گئے ہیں۔ بی جے پی عوام کے سامنے انہیں درپیش مسائل یا ان کا حل پیش کرنے یا پھر حکومت کی کارکردگی ظاہر کرنے کے موقف میں نہیں ہے اسی لئے مذہب کا سہارا ہی لیا جا رہا ہے ۔
بنگال میں چونکہ فٹبال مقبول کھیل ہے اس لئے وزیر اعظم نے آج کی تقریر میں فٹبال میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کا استعمال کیا ۔ انہوں نے فٹبال کی ’ لال کارڈ ‘ کی اصطلاح کو ترمیم کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ مغربی بنگال کے عوام ممتابنرجی کو جلد ہی ’ رام کارڈ ‘ دکھائیں گے ۔ ان کا اشارہ تھا کہ ریاستک ے عوام اب ممتابنرجی کو اقتدار سے بیدخل کردیں گے تاہم اس کیلئے انہوں نے ایک بار پھر پوری چالاکی اور چرب زبانی سے مذہب کا سہارا لینے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ جس طرح سے بی جے پی کے دوسرے قائدین اور خود مرکزی وزراء بھی اشتعال انگیزی کی روایات پر شدت سے عمل کرتے آ رہے ہیںا ور جس طرح سے عوام میں مذہب کی بنیاد پر نفاق پیدا کیا جا رہاہے انہیں روکنے اور ان کی سرزنش کرنے کی بجائے خود وزیر اعظم بھی انہیں کی زبان بولنے لگے ہیں اور یہ محض ایک ریاست کے انتخابات میں کامیابی کیلئے ہے ۔ یہ رویہ انتہائی افسوسناک کہا جاسکتا ہے کیونکہ ملک کا وزیر اعظم اگر انتخابی سیاست کیلئے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرنے پر آجائے تو دوسروں پر لگام کسنا اور انہیں روکنا ممکن نہیں رہ جائے گا ۔ ممتابنرجی پر تنقید کرنا وزیراعظم کا حق ہے ۔ اپنی پارٹی کی تشہیر کرنا اور اپنی پارٹی کیلئے ووٹ مانگنا وزیراعظم کا حق ہے اور اس میں کوئی عار نہیں ہے لیکن صرف ووٹ حاصل کرنے کیلئے مذہب کا سہارا لینا اور عوام میںمذہبی جنون کو فروغ دینا مذموم عمل ہی کہا جاسکتا ہے جو کم از کم وزیر اعظم کو ذہب نہیں دیتا ۔
ایک روایت بن گئی ہے کہ جب کبھی ملک کی کسی ریاست میں ا نتخابات ہوتے ہیں بی جے پی کی جانب سے سماج میں نفاق پیدا کرنے اور ہندو ۔ مسلم اختلافات کو ہوا دینے اور مذہبی نعروں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ محض چند زر خرید چینلوں اور غلام ٹی وی اینکروں کے بل پر حکومت اپنی واہ واہی تو کروا رہی ہے لیکن انتخابات جیتنے بنیادی مسائل کو پیش کرنے میں ناکام ہے اور اسے آج بھی مذہبی جنون کا ہی سہارا لینا پڑ رہا ہے ۔ وزیر اعظم نے رام کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے ایک غلط نظیر قائم کی ہے اور صحیح الفکر افراد کو انہوں نے مایوس بھی کیا ہے ۔
