بڑائی صرف اﷲتعالیٰ کی ہی شان ہے انسان کبھی اپنی اوقات کو نہ بھولے

   

حکمِ خدا، حکمِ خدا ہی ہے۔ آج کے موجودہ زمانے کے فسادات میں سے ایک فساد احکامِ الٰہی کی عظمت دل سے نکل جانا ہے۔ شریعت کے احکام جب کسی کے سامنے آتے ہیں، منشاء کے خلاف ہوتے ہیں تو انکی نفوس تاویلات نکالنا شروع کردیتے ہیں، راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ پھر سوالات پوچھتے ہیں کہ شریعت میں ایسا کیوں ہے ؟
یاد رکھیں کہ جس بندے نے کلمۂ طیبہ ’’لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ پڑھ لیا اور یہ بھی کہدیا کہ ’’اٰمَنْتُ بِااللّٰہ کَمَا ہُوَ بِاَسْمَآئِہِ وَ صِفَاتِہٖ وَ قَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ‘‘ (ترجمہ: میں ایمان لایا اﷲتعالیٰ پر جیسا کہ وہ اپنے ناموں اور صفات کے ساتھ ہے اور میں نے اﷲتعالیٰ کے سب احکام قبول کرلئے)۔ اب اس اقرار کے بعد بندہ کے پاس سوال کرنے کا اختیار ہی نہیں رہا، اب وہ یہ نہیں پوچھ سکتا کہ شریعت میں ایسا کیوں ہے ؟ جب احکام قبول کرلئے تو اب فقط احکام پر عمل کرنا باقی رہ گیا۔
جانوروں کا، مالک کے سامنے اپنے آپ کو قربان کرنا
اﷲتعالیٰ نے جانوروں کو انسان کے تابع بنادیا ہے۔ مثلاً
{ ۱ } اونٹ، یہ اتنا بڑا جانور ہے کہ اگر بندے کو لات ماردے تو اسکی جان ہی نکل جائے گی۔ لیکن اس بھاری بھرکم اونٹ کی نکیل جب ایک چھوٹے سے بچے کے ہاتھ میں دے دی جائے تو اونٹ اس کے تابع ہو کر پیچھے چلنا شروع کردیتا ہے۔ بچہ کم عمر کا ہے، مگر اونٹ کو اس کا مطیع وفرمابردار بنادیا گیا۔ کبھی وہ اپنے مالک سے جھگڑا نہیں کرتا کہ میری کمر پر بوجھ رکھ دیا گیا۔ حتی کہ وہ کئی میل کا سفر بارہا کرتا رہتا ہے۔
{ ۲ } گھوڑا، اسکو بھی انسان کے ماتحت کردیا گیا، وہ انسان کا فرمابردار رہتا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے گھوڑے سے بولنے کا اختیار بھی چھین لیا ہے۔ اگر بولنے کی طاقت دی جاتی تو وہ بھی قدم، قدم پر یہی کہتا کہ مجھے چارہ نہیںملا، دیا جائے۔ میں بیمار ہوں، رخصت دیجائے۔ وغیرہ، تو انسان کیلئے بڑی مصیبت کھڑی ہوجاتی۔
{۳} کتّا ایک وفادار جانور ہے۔ عجائب المخلوقات میں ایک واقعہ لکھا ہوا ہے کہ ایک شخص نے کسی کا قتل کرکے اسکی لاش کو کسی کنویں میں ڈال دی۔ مقتول کا کتا واردات کے وقت اس کے ساتھ تھا۔ وہ کتا روزانہ اس کنویں پر آتا اور اپنے پنجوں سے اس کی مٹی ہٹاتا اور اشاروں سے بتاتا کہ اس کا مقتول مالک یہاں ہے اور جب کبھی قاتل اس کے سامنے آتا تو وہ اس کو دیکھ کر بھونکنے لگتا۔ لوگوں نے جب بار بار اس بات کو دیکھا تو انہوں نے اس جگہ کو کھدوایا۔ چنانچہ وہاں سے مقتول کی لاش برآمد ہوئی اور اس کے قاتل کو سزاء دی گئی۔
ایک نزاکت والا اہم مسئلہ
جس طرح جانوروں کو اﷲتعالیٰ نے انسان کا فرمابردار اور ماتحت بنادیا ہے اور وہ اس کے سامنے اپنا سر جھکادیتے ہیں، اسی طرح اﷲتعالیٰ نے انسانوں کو اپنے محبوب حضور پاک صلی اﷲعلیہ وسلم کا ماتحت بنادیا ہے۔ لہذا جتنے بھی انسان ہیں، سب کو چاہئے کہ وہ نبی پاک صلی اﷲعلیہ وسلم کے حکم پر ہر وقت آمین کہا کریں۔ نہ کوئی انکار کی گنجائش ہے اور نہ ہی کسی سنتِ نبوی صلی اﷲعلیہ وسلم پر اعتراض کرنے کی گنجائش ہے۔ کلمہ پڑھ کر ہم نے عہد کیا ہے کہ اے اﷲ ! جس طرح ہمارے جانور، ہمارے ماتحت ہیں، اُسی طرح ہم آپ کے اور آپ کے محبوب صلی اﷲعلیہ وسلم کے ماتحت ہیں۔ اے اﷲ ! اگر ہم جانوروں کے مالک ہیں اور وہ ہماری اتنی فرمابرداری کرتے ہیں تو ہمارے اصل مالک تو آپ ہی ہیں، ہمیں بھی آپ کی ہمیشہ ہمیشہ فرمابرداری کرنی چاہئے۔اسی لئے اﷲ تعالیٰ کے احکام میں نکتہ چینی کرنا اور نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنتوں پر اعتراض کرنا ایمان سے محرومی کا سبب بن جاتاہے۔ لہذا آج کا دور بڑا فتنوں کا دور ہے۔ ایکدوسرے سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے، ’’شریعت میں ایسا کیوں ہے؟، یہ کیوں ہے ؟ ‘‘۔ کہتے ہیں تو ایسے طریقہ کو اختیار کرنے سے ایمان جیسی دولت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ بہت نازک ہے۔
او ر یہ یاد رکھیں کہ جہاں بھی سنت کا استخفاف (ہلکا و معمولی سمجھنا) ہوگا، وہاں انسان ایمان سے محروم ہوجائے گا۔ اپنی سستی اور غفلت کیوجہ سے سنت پر عمل نہ کرنا الگ مسئلہ ہے، اس سے انسان گنہگار تو ضرور ہوگا، مگر اس سے کافر نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کوئی انسان سنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم پر اعتراض کرے، یا سنت کا مذاق اڑائے، یا کوئی ایسی بات کردے، جس سے سنت ہلکی اور بے وزن نظر آئے تو اس کے سبب انسان ایمان سے محروم ہوجاتا ہے۔ قابل غور امر یہ ہیکہ اپنے دل میں عظمت کبریائی و خدائی بٹھائی جائے۔ جب تک دل میں عظمت ِ کبریائی و خدائی پیدا نہ کی جائے، تب تک نفس کو لگام نہیں پڑے گا۔ نفس ہمیشہ شریعت کے اندر اپنا منشاء تلاش کرتا ہے۔ حتی کہ عالم بے عمل بھی جب قرآن پڑھے گا تو اس میں منشائے خدا، تلاش کرنے کے بجائے، اپنی منشاء تلاش کریگا۔ مگر جو عالم باعمل ہوتا ہے، وہ قرآن پڑھتے وقت اپنی منشاء نہیں، بلکہ رب کریم کی منشاء تلاش کرتا ہے۔رب کریم کی منشاء تلاش کرنے کیلئے لاز م و ضروری ہے کہ اپنے نفس پر لگام لگائی جائے۔اور جسوقت یہ لگام لگ جائے، توسمجھ لیں کہ اسی وقت دل میں خدا کی عظمت آجاتی ہے۔
ایاز کے دل میں حکم شاہی کی قدر و تعظیم
ایک مسلم (نیک دل ولی اﷲ ) بادشاہ سلطان محمود غزنوی (علیہ الرحمہ) سے انکے ساتھ رہنے والوں (جنکو ایاز سے بڑا حسد تھا) نے یہ شکایت کی کہ بادشاہ سلامت !ایاز کی ایک الماری ہے، یہ اس الماری کو تالا لگاکر رکھتا ہے، وہ روزانہ اس الماری کو کھول کر دیکھتا ہے اور کسی دوسرے بندے کو دیکھنے نہیں دیتا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس نے آپ کے خزانے کے قیمتی ہیرے اور موتی اس کے اندر چھپائے رکھا ہے؟ آپ اسکی تلاشی لیجئے۔
جب مسلم (نیک دل ولی اﷲ ) بادشاہ سلطان محمود غزنوی (علیہ الرحمہ) کے سامنے یہ شکایت کی گئی تو بادشاہ نے اسی وقت ایاز کو بلوایا اور کہا کہ ایاز ! کیا تمہاری کوئی الماری ہے ؟
ایاز نے کہا جی ہاں ، ہے۔
بادشاہ نے پوچھا! کیا اسے تالا لگاکر رکھتے ہو ؟ ایاز نے کہا جی ہاں۔
بادشاہ نے پوچھا! کسی اور کو دیکھنے دیتے ہو؟ ایاز نے کہا جی نہیں۔
بادشاہ نے پوچھا! کیا تم خود اسے روزانہ دیکھتے ہو ؟ ایاز نے کہا جی ہاں۔
پھر بادشاہ نے کہا کہ کنجی لاؤ، ایاز نے کنجی دیدی۔ بادشاہ نے اپنے دوسرے غلام کو بھیجا کہ جاؤ، اس الماری میں جو کچھ موجود ہے، وہ سب کچھ لاکر یہاں سب کے سامنے پیش کرو، اب حاسدین بڑے خوش ہوئے کہ دیکھو اب ایاز کی حقیقت کھل جائے گی۔ جب اسکی چوری کا سامان سامنے آئے گا تو بادشاہ ابھی اس کو یہاں سے دھکے دے کر نکال دے گا۔
اﷲ کی شان دیکھئے کہ جب وہ بندہ واپس آیا تو اس نے آکر بادشاہ کے سامنے تین چیزیں رکھ دیا۔ ایک پرانا جوتا۔ دوسرا پرانا تہہ بند۔ تیسرا پرانا کرتا۔
بادشاہ نے پوچھا اس میں کچھ اور نہیں تھا؟ اس نے کہا جی نہیں۔ پھر بادشاہ نے ایاز کی طرف متوجہ ہوکر پوچھا ، ایاز! کیا الماری میں کچھ اور نہیں ہے؟ ایاز نے کہا جی نہیں، یہی کچھ تھا۔
بادشاہ نے کہا ایاز! اس میں تو کوئی قیمتی چیز نہیں ہے، جسے تم قفل میں بند کرکے رکھو، کسی دوسرے کو دیکھنے بھی نہ دو اور کوئی ایسی چیز بھی نہیںہے کہ جسے تم روزانہ آکر دیکھو کہ ٹھیک ہے یا نہیں؟
ایاز نے کہا باشاہ سلامت! بات دراصل یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ بہت قیمتی چیزیں ہیں۔ بادشاہ نے کہا وہ کیسے؟
ایاز نے کہا ! جب میں پہلی بار آپ کے دربار میں آیا تھا تواس وقت میں یہ جوتا، تہہ بند اور کرتا پہن کر آیاتھا۔ میں ان تینوں چیزوں کو محفوظ کرلیا۔ اب میں روزانہ اس الماری کو کھول کر ان تینوں چیزوں کو دیکھتا ہوں اور اپنے نفس کو سمجھاتا ہوں کہ ایاز! تیری اوقات یہی تھی، اپنی اوقات کو نہ بھولنا۔ اب جو کچھ ملا ہے، یہ سب بادشاہ کا تجھ پر احسان ہے۔ لہذا تم اپنے بادشاہ کا احسان سامنے رکھنا۔ بادشاہ سلامت! اس طرح مجھے اپنی اوقات یاد رہتی ہے کہ میں کیا تھا اور بادشاہ نے مجھے کیا بنادیا۔
کاش !جیسی ایاز کے دل میں بادشاہ کے حکم کی قدر و قیمت بھیک ہماری بھی یہی کیفیت ہوجاتی کہ ہم اﷲسبحانہٗ وتعالیٰ کی نعمتوں کو یاد رکھتے اور اپنی اوقات کو یاد رکھتے۔ ہمیں ذرا سا کچھ مل جاتا، توسب سے پہلے اپنی اوقات کو بھول جاتے۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہمیشہ اپنی اور اپنے حبیب مصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم کی اطاعت و فرمابرداری کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ہرحال میں اپنی اوقات کو یاد رکھنے کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@gmail.com